Sino-Indian flare-up at Galwan dilutes bilateral ties: Reportتصویر سوشل میڈیا

ایک یورپی تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ حقیقی کنٹرول لائن(ایل اے سی) پر وادی گلوان علاقہ میں 15جون کو ہندوستانی و چینی فوجوں کے مابین سرحدی جھڑپ سے،جس میں طرفین کا کافی جانی نقصان ہوا، مستقبل میںہند چین کے وسیع تر تعلقات کی رفتار متاثر ہوئی ہے اور سرحدی مذاکرات کے لیے بڑے جوشیلے انداز میں تیار کیے گئے قواعد و ضوابط پر پانی پھر گیا۔ ایمسٹرڈم میں قائم یورپی فاو¿نڈیشن فار ساو¿تھ ایشین اسٹڈیز نے جمعہ کو شائع ہوئی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چینی حملہ سے حالیہ برسوں میں چین اور ہندوستان کے درمیان فوجی حالات نہایت سنگین ہو گئے ہیں اور جذبات کا بھڑکنا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ حالات اور بھی زیادہ سنگین ہونے کی صورت حال بن رہی ہے۔

ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے تھنک ٹینک نے کہا کہ چینی حملہ ہند چین کے لیے 21ویں صدی کا ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ اور یہ کہ دونوں ملکوں کے درمیان مستقبل میں عدم اعتماداور تازہ ٹکراؤ کے امکانات اور بڑھ جائیں گے۔ہندوستانی فوجیوں پر حملہ بڑھتی چینی ہٹ دھرمی و دعوے کے، خواہ بحیرہ جنوبی چین ، تائیوان یا ہانگ کانگ پر ہی کیوں نہ ہوں ، پس منظر میں ہوا ہے۔چین خطہ میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے ،بحیرہ جنوبی چین میں ملیشیائی اور ویتنامی جہازوں کو روک رہا ہے ،ہانگ کانگ پر نئے اختیارات جما رہا ہے اور حساس آبنائے تائیوان میں دو بار طیارہ بردار جہاز لے جا چکا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان اس جھڑپ نے اس حقیقت پر ابہام دور کر دیا ہے کہ چین بین الاقوامی قوانین ،روایات اور قدروں کی حدیں پار کر رہا ہے اور ایل اے سی پر حملہ تازہ اور نہایت سنگین قسم کی وحشیانہ کارروائی ہے۔

ہندوستان نے علاقہ میں تازہ کمک بھیج کر چینی جارحیت کا جواب دیا ہے اور اسی وقت سے دونوں ملکوں کے سیکڑوں فوجی دریائے گلوان کی وادی میں ایک دوسرے سے چند سو میٹر کی دوری پر کھڑے ہیں۔ہندوستان ایل اے سی کے قریب مختلف بنیادی ڈھانچوں پر، خاص طور پر ایل اے سے متصل محاذی علاقوں کو لداخ میں واقع قریب ترین ہوائی اڈے دولت باغ اولڈی سے ملانے کے سڑک بنانے پر کام کر رہا ہے۔ان تعمیرات سے ہندوستان تیزی سے فوجی نقل و حمل اور اسٹریٹجک پیش قدمی کرنے کے قابل ہو جائے گا۔لیکن دوسری جانب اس سے چین کو پریشانی لاحق ہو گئی ہے۔مزید برآں ہندوستان ، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی جو چین کی کئی بلین ڈالروں سے تیار ہونے والی ایک سڑک ایک پٹی (بی آر آئی) ہے اور اس علاقہ سے جہاں تعمیرات چل رہی ہیں گذرتی ہے،مخالفت کر رہا ہے۔

ہندوستان اور چین کے فوجی افسران بالا کے درمیان 6جون کو ہونے والے مذاکرات میں لیے گئے فیصلوں کی بنیاد پر ہندوستان نے 15جون کو فوجیوں کی ایک پارٹی یہ دیکھنے کے لیے بھیجی کہ وادی گلوان کے ایک مخصوص مقام سے جہاں سے چینی فوجیوں کو واپس جانا تھا، چینی فوجی واپس چلے گئے یا نہیں۔ لیکن وہاں ہندوستانی فوجیوں پر چینی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد نے لمبی لمبی کیلیں ٹھکی آہنی سلاخوں اور خار دار تار میں لپٹے بڑے بڑے پتھروں سے حملہ کر دیا۔1990کے اوائل سے ایل اے سی پر جاری پروٹوکول کی رو سے فریقین آتشیں اسلحہ کا استعمال نہیں کر سکتے ۔ ہندوستانی فوج کی جانب سے جوابی حملوں کے بعد دونوں نے تازہ کمک طلب کر لی۔ جس کے بعد رات کے اندھیرے میں دو بدو لڑائی شروع ہو گئی جو حد درجہ خونریز ہو گئی۔5000میٹر کی اونچائی پر خون منجمد کرنے والے موسم سے ہلاکتوں کی تعداد اور بڑھ گئی۔

چین کے شریک جنگ ہونے کے باوجود 15جون کی جھڑپ میں اپنے فوجیوں کی ہلاکت کو عام نہ کرنے سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ وہ ایل اے سی کو کتنا بے وقعت اور حملہ کے لیے لقمہ ترسمجھتا ہے ۔علاوہ ازیں اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جھڑپوں کو پھیلنے سے روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ تھنک ٹینک نے اس بات کو بھی نوٹ کیا کہ ایل اے سی پر ہونے والی اس جھڑپ کو چینی حکومت کی جانب سے کوئی اہمیت نہ دیاجانا بھی شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔جبکہ اس کے برعکس آبنائے تائیوان جیسے دیگر فوجی اقدامات کے واقعات میں جہاں امریکہ معمولی سی اشتعال انگیزی بھی کرتا ہے تو چین اسے انتباہ دینا شروع کر دیتا ہے۔

مذکورہ بالا کے ساتھ ساتھ باقاعدہ سرحد نہ ہونے اور ایل اے سی کی تقسیم سے متعلق مختلف سوچ سے اتفاق رائے نہیں ہو پاتا اور پر تشدد واقعات شروع ہو جاتے ہیں اور یہ صورت حال اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک کہ باقاعدہ سرحد طے نہ ہو جائے۔تاہم ہندوستان نے یہ واضح کر دیا کہ وہ پر تشدد جھڑپوں کے حق میں نہیں ہے لیکن چین نے اگر جارحیت کی تو و بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش نہیں بیٹھے گا۔اور اس کا اظہاروزیر اعظم نریندر مودی اپنے17جون کے ٹیلی ویژن خطاب میں دو ٹوک انداز میں کر چکے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان چین کے ساتھ سرھدی تنازعہ کے سفارتی حل کے حق میں ہے ۔دریں اثنا اس وقت چین جس طرح بین الاقوامی سطح پر معتوب بننے کی وجہ سے سخت دباو¿ میں ہے اس کا ہندوستان بڑے زبردست فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *