قادر خان یوسف زئی
پاکستان ڈیو کرٹیک موومنٹ کی غیر اعلانیہ واضح تقسیم میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستا ن مسلم لیگ(ن) کے درمیان پہلی درارڑ اُس وقت پڑی تھی، جب سابق وزیراعظم نے ملکی مقتدر اداروں کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کی ، پی پی پی کو نواز شریف سے متنازع بیان کی توقع نہیں تھی کہ (ن )لیگ براہ راست ریاستی اداروں کے سربراہوں کو نشانہ بنائے گی ، سنجیدہ حلقوں میں نواز شریف کے جارحانہ بیانات کو بے محل قرار دیا۔ پی پی پی کی طرز سیاست پر تنقید کی جاسکتی ہے ، تحفظات کا اظہار بھی کیا جاسکتا ہے ، لیکن یہ اَمر طے شدہ ہے کہ وہ پارلیمان نظام کی تبدیلی میں آمریت و صدارتی نظام کی بدترین مخالف ہے ۔اٹھارویں ترمیم کے بعد پی پی پی اور اے این پی میں قربتیں بڑھیں، ان کے اتحاد کو صوبائی خود مختاری و سرحدی صوبے کو ایک صدی بعد شناخت ملنے کے تناظر میں دیکھا جانا چاہے ، اے این پی رہنما ﺅں نے مفاہمتی سیاست میں پی پی پی کو کبھی مایوس نہیں کیا ۔
قوم پرستی کی سیاست میں سابق فاٹا اراکین بھی اسی نظریئے کے ساتھ پی پی پی کے ساتھ کندھا ملائے نظر آتے ہیں ، پی پی پی غیر اعلانیہ ( سندھی )قوم پرست جماعت کے خمیر میں ڈھل چکی ، اس لئے دیگر قوم پرست جماعتوں کے ساتھ ان کے نظریات اور مفادات میں ہم آہنگی اتفاقیہ نہیں رہی۔ (ن) لیگ کی سیاست اپنے رہنماﺅں کی گرفتاریوں ، مقدمات سے بچاﺅ اور ضمانتیں کرانے تک محدود ہو کر رہ گئی تھی ، نواز شریف کی لندن روانگی و واپس نہ آنے کے باعث (ن ) لیگ کی سیاست کو اگر کسی نے زندہ رکھا تو وہ مریم نواز ہیں ، عملی طور پر مرکزی قیادت کا لندن سے نہ آنا، پی پی پی کے لئے ٹرمپ کارڈ ثابت ہوا اور استعفوں کے مطالبے پر نواز شریف کی وطن واپسی پر زور دینے سے اختلافات کا سامنے آگئے، جوحکومت کے لئے خوش خبری بن گئی۔ شہباز شریف کے تحمل و خاموش سیاست پر یقین رکھنے کی وجہ سے سیاسی طور پر( ن) لیگ عوام سے دور ہوتی جا رہی تھی ، ن لیگ کے دیگر قائدین کا اپنا اثر رسوخ ضرور ہے، لیکن جس طرح مریم نواز نے عوام کے درمیان سیاسی جدوجہد میں سبک رفتاری سے اپنی جگہ بنائی ، اس کے سیاسی مخالفین بھی معترف ہیں ، مریم نواز جارحانہ سیاست پر یقین رکھتی ہیں ، انہیں اپنی جماعت میں گروپ بندیوں پر تشویش بھی ہے ، لیکن اس کے باوجود جس طرح احتجاجی تحریک ، ضمنی انتخابات بالخصوص گلگت بلتستان انتخابات میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا ، یہ حکومت کے لئے ایک بڑا دھچکہ تھا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ شریف بردارن کی غیر حاضری کے بعد ملکی سیاست میں( ن) لیگ قصہ پارنیہ بن جائے گی ، لیکن جس طرح مریم نواز کھڑی ہوئیں ، اُس وجہ سے (ن )لیگ میں نئی جان آگئی ۔
اب مریم نواز کی ’ بیماری‘ کی وجہ سے خاموشی ایوان اقتدار میں کسی نئی تبدیلی کی بازگشت میں ڈھل چکی ، قیاس آرائیوں نے حکومتی ترجمانوں کو بھی غیر یقینی صورت حال سے دوچارکیا ہوا ہے۔پی ڈیم ایم میں شامل تیسری بڑی سیاسی قوت مولانا فضل الرحمن کی قیادت ہے ، ان کے نظریاتی کارکنان کی بڑی تعداد اسلام آباد میں بھونچال پیدا کرسکتی ہے ، لیکن انہوں نے پُر تشدد سیاست سے گریز کی راہ اختیار کی ہوئی ہے ، جلسوں اور ریلیوں میں منظم جماعت و فعال کارکنان کی اکثریت نے مقتدر حلقوں کو بے چین رکھا ہوا ہے ، لیکن یہ بھی سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن دینی شخصیت ہونے کے باوجود سیاست میں مذہبی کارڈ کے نا پسندیدہ استعمال سے گریز کیا جو عمومی طور پر دیگر مذہبی جماعتیں اپنی شرائط و مطالبات منوانے کے لئے کرتی ہیں ، مولانا کے زیر اثر مدارس میں لاکھوں طلبا زیر تعلیم ہیں ، اگر وہ چاہتے تو ان کا رخ’ جمہوریت‘ کے بجائے’ خلافت ‘کے نام پر موڑ سکتے تھے ، لیکن انہوں نے مدارس کے لاکھوں طلبا کو پارلیمانی سیاست کے تابع رکھا ہوا ہے ، اگر مذہبی کارکنان سے احتجاج کرانا چاہتے تو افغانستان و ایران سے بدترین صورتحال کا شکار پاکستان بھی ہوسکتا تھا ، مولانا سے سیاسی اختلافات اگر کسی بھی جماعت کو ہیں ، تو یہ سیاست کا حصہ ہی ہے ، لیکن جس طرح بعض سیاسی جماعتیں اپنے فروعی مفادات کے لئے انہیں استعمال کرکے مایوس کررہے ہیں ، یہ ایک قابل تشویش عمل ہے کہ مولانا بعض سیاسی جماعتوں کی سیاسی چالوں سے مایوس ہو کر ایسا کوئی قدم با امر مجبوری نہ اٹھا لیں ، جو کسی کے حق میں بہتر نہ ہو۔پی ڈی ایم میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں کا اثر رسوخ علاقائی ( صوبائی) بنیادوں تک محدود ہے ، یہ اگر انتخابی اتحاد کی صورت میں مربوط ہوجائیں تو قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان کا انتخابی اتحاد ، بکھرے ووٹوں کے یکجا ہونے سے دیگر جماعتی اتحادیوں کو ٹف ٹائم دے سکتا ہے ۔
پی پی پی اور ن لیگ کے رہنما جس طرح ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں کررہے ہیں ، اس سے عوام میں اچھا تاثر نہیں جارہا ، پی ڈی ایم کے ممکنہ اجلاس سے قبل انہیں باہمی اختلافات کو اُس نہج پر لے جانے سے گریز کرنا چاہیے تھا ، جس سے ابہام یقین میں بدل جاتا ہے کہ پی ڈی ایم عملی طور پر منقسم ہوچکی ۔پی پی پی ممکنہ انتخابات کے لئے اپنی صفوں کو از سر نو ترتیب دے رہی ہے ، ان کی تمام مرکزی قیادت کسی بھی وکٹ پر کھیلنے کے لئے آزاد ہے ، ریاستی اداروں کے خلاف بے موقع جارحانہ بیانات دینے میں محتاط ہیں ، دوسری جانب (ن) لیگ کی نائب صدرمریم نواز اب پی پی پی سے محتاط ہوچکی ہیں، کیونکہ وہ سمجھ چکی کہ زرداری کی سیاست کو سمجھنا اتنا آسان بھی نہیں ، جتنا وہ سمجھ رہی تھی۔ پنجاب میں سینیٹ نشستوں کے لئے پی ٹی آئی و (ق )لیگ سے مفاہمت کے بعد ن لیگ کے بیاینے کو نقصان پہنچا ، جسے وہ ڈسکہ الیکشن میں دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، لیکن پنجاب حکومت گرانے کے لئے اب ن لیگ کو سینیٹ کی نشستوں پر بلا مقابلہ کامیابی کی طرح ، ق لیگ کے لئے راضی کروانا بہت دشوار نظر آتا ہے۔ پی پی پی و ن لیگ میں اختلافات کی خلیج بڑھ چکی ہے ۔ مولانا صاحب کا سینیٹ انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے کا غصہ کم نہیں ہوا ۔تاہم دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی صفوں میں ہل چل کے باوجود حکمراں اتحاد مطمئن نہیں بلکہ ان کی تشویش میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے کیونکہ مہنگائی جیسی مضبوط ،مشتعل اپوزیشن ریاست کے قابو میں بھی نہیں آرہی۔