ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین

یکم فروری کو ہندوستان کی وزیر مالیات نرملا ستیارمن اپنا دوسرا بجٹ اور مودی حکومت کی دوبارہ واپسی کے بعد مودی2 0کا پہلا بجٹ پیش کر رہی ہیں۔ حال کے دنوں میں سالانہ بجٹ کی اہمیت اور اس کی سنسنی خیزی میں کمی آئی ہے کیونکہ اب بجٹ سے پہلے اور بجٹ کے بعد ہر طرح کے مالیاتی اعلانات ہوتے رہتے ہیں اور بجٹ بننے کے بعد بھی بہت طرح کے پالیسی اعلانات کےے جاتے ہیں اوران میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ اس لےے بجٹ اب ایک رسمی چیز بن کر رہ گئی ہے جس پر بہت زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا ہے۔ تاہم اس بار کا بجٹ کچھ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ معیشت پر جتنی توجہ دینی چاہےے مودی حکومت نہیں دے رہی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ ہندو تو کے ایجنڈے پر زور دینے سے اسے ووٹ مل ہی جاتا ہے اور مل ہی جائے گا تو ملک کی معیشت خراب بھی ہوتی ہے تو سیاسی طور پر کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ مگر جس طرح اس کے ہاتھ سے حالیہ ریاستی انتخابات میں کئی ریاستیں نکل گئی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن کی ہار اور جیت میں معیشت بھی ایک اہم موضوع ہے۔ لہٰذا اس کو نظر انداز کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ دہلی کا چناو¿ سر پر ہے جس کو جیتنے کے لےے بی جے پی ہر جتن کرے گی اس میں 2020کا بجٹ بھی ایک ہتھیار ہوسکتا ہے۔ موجودہ وقت میں بھارت کی معیشت بہت مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔ جی ڈی پی کی شرح ترقی معاشی ریفارم کے بعد سب سے نچلی سطح پر ہے اور وہ گھٹ کر4.8%رہ گئی ہے۔ بے روزگاری کی شرح پچھلے 45سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ دیہی سیکٹر سخت دباو¿ میں ہے۔ چھوٹے کاروبار اور چھوٹی صنعتیں بہت سخت دور سے گزر رہی ہیں۔ بچت اور صرف دونوں نیچے کی طرف جارہے ہیں۔ بڑے صنعت کار سرمایہ لگانانہیں چاہتے ہیں۔ ایف ڈی آئی میں بھی سستی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ غرض اس وقت معیشت کے تمام شعبہ جات چاہے وہ زراعت، تجارت، صنعت و حرفت اور خدمات ہوں درآمد اور برآمدہو، سرمایہ کاری ہو، وہ سب سخت حالات سے دوچار ہیں۔ ماہرین معاشیات کے درمیان یہ بحث جارہی ہے کہ بھارت کی معیشت سست روی (Slowdown)کی شکار ہے یا بھارت میں مندی کا دور (Recession)ہے یا بھارت معاشی بحران (Economic Crisis)کا شکار ہے۔ بھارت کی معیشت کو جنرل وارڈ میں رکھا جائے گا یا اسے آئی سی یو میں لے جانا ہوگا۔ کچھ لوگوں کی رائے میں یہ ڈھانچائی مسئلہ(Structural Problem)ہے تو کچھ اسے تواتر(Cyclical)مانتے ہیں۔ بہرحال مرض کی شدت اور نوعیت کی تشخیص میں ماہرین معاشی اطباءکے درمیان چاہے جو اختلاف ہو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بھارت کی معیشت ان دنوں بیمار ہے ۔ اب یہ کرونا وائرس ہے یا ڈینگو یہ پتہ لگانا ماہرین کا کام ہے۔

معیشت کو وائرل انفکشن ہے یا بیکٹریائی انفکشن ہے اس سے مریض کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسے تو بروقت مناسب علاج کی ضرورت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری فاضل وِت منتری اس کا کوئی معقول علاج کرپاتی ہیں یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک بجٹ سارے مسئلے اور ساری بیماریوں کا حل نہیں ہوسکتا ہے۔ مگر بجٹ سے پتہ چلے گا کہ مرض کی صحیح تشخیص ہوئی ہے یا نہیں اور جو دوا فی الفور تجویز کی گئی ہے وہ کچھ فائدہ مند ہوگی یا نہیں۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیاہے۔ ملک کی تمام سیاسی اور معاشی طاقت ایک فی صد لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہے اور بھارت میں جمہوریت ہے۔ لہٰذا ووٹ کی قوت عام عوام کے ہاتھ میں ہے۔ حکومت عوام کے ووٹ سے بنتی ہے۔ عام عوام غریبی، بے روزگاری، معاشی تفاوت، علاقائی نابرابری کے شکار ہیں، اس پر مستزاد ذات پات اور فرقہ پرستی ہے۔ ایسی صورت میں عوام کا ووٹ کیسے لیا جائے اور کیسے اپنے آپ کو اقتدار میں بنائے رکھا جائے اس گروہ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ظاہر ہے لوگوں کو معاشی طور پر خود کفیل بنانا آسان نہیں ہے۔ اس لےے حکومتیں دو کام کرتی ہیں۔ پہلا لوگوں کو ان کے ضروری مسائل سے الگ کرکے ایسے جذباتی امور میں الجھا کر رکھا جائے جس کے بعد وہ حکومت سے اپنے بنیادی مسائل کے باب میں سوال نہ کرسکیں اور دوسرا ان کو کچھ اناج، کچھ کپڑا، کچھ دوا اور اسی طرح کی کچھ سہولتیں یا تو مفت یا پھر کم قیمت پر فراہم کردی جائے اور دعویٰ کیا جائے کہ ہماری حکومت غریبوں کے لےے اور غریبوں کی فلاح سب سے مقدم ہے اور اس طرح غریب، ان پڑھ اور سیدھے سادے عوام کو دھوکہ دے کر ان کا ووٹ لے لیا جائے۔ یہ کام پہلے بھی ہوا ہے اور اس بار بھی ہوگا۔ ٹیکس میں چھوٹ، قرض معافی، سبسڈی اور فری بی ایک اچھی سیاست تو کہی جاسکتی ہے لیکن یہ اچھی معیشت نہیں ہے۔

ہمارے بینک اس وقت اس سیاست کی وجہ سے بحرانی دور سے گزر رہے ہیں۔ جب بینک بیمار اور دیوالیہ ہوجائیں گے تو معیشت دیوالیہ ہوگی ہی۔ دراصل پارٹیاں تھوڑے وقتوں کے لےے اقتدار میں آتی ہیں مگر اپنی پالیسیوں سے معیشت کو دائمی نقصان پہنچا جاتی ہیں جس کا سلسلہ برسوں چلتا رہتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ نرملا ستیا رمن اس بار کیا کرشمہ دکھاتی ہیں۔ آئی سی یو میں جاتی معیشت کو دوبارہ صحت مند بناکر باہر نکالنے میں کامیاب ہوتی ہیں یا کچھ مسکن دوائیں دے کر فی الحال اس کو کچھ راحت پہنچا کر مطمئن ہوجاتی ہیں۔ اس وقت دو سیکٹر فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ پہلا دیہی معیشت کو موجودہ بحران سے نکالنا ہے کیونکہ ہندوستان کے معاش کی کنجی ابھی بھی دیہاتوں میں ہے۔ ملک کی ستر فی صد آبادی آج بھی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ اور دوسرا روزگار کے مواقع پیدا کرناہے۔ پڑھے لکھے نوجوان جو اس وقت لاکھوں کی تعداد میں بے کار ہیں ان کو روزگار دینا سب سے پہلی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے گروتھ انجن بن سکتے ہیں۔ اس کے لےے بڑے پیمانے پر ملکی اور بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ اس کے لےے ضروری ہے کہ ملک میں پرامن ماحول ہو اور سیاسی اتھل پتھل سے ملک محفوظ ہو۔ لہٰذا حکومت کو اپنے ایجنڈے اور کام کاج پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور ملک کو سماجی اور فرقہ وارانہ طور پر پرامن بنانا ہوگا۔ بجٹ کو وقت کی سیاست اور جاری ماحول سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔
(مضمون لوک سبھا میں2020-21کا عام بجٹ پیش کرنے سے قبل لکھا گیا)
(کالم نگار ’زندگی ریٹائرمنٹ کے بعد کے مصنف اور بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل کےسابق وائس چیئرمین ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *