اظہر اقبال مغل

دینا میں سب سے قیمتی چیز انسان کی جان ہے جس پر وہ دیناکی ہر چیز قربان کر دیتاہے ۔انسان کی ساری زندگی کمانے میں گزر جاتی ہے لیکن جب انسان پر کوئی بیماری ہے تو ساری دولت لٹا دیتا ہے اپنی صحت کیلئے عمر بھر کی جمع پونجھی اپنی جان کیلئے قربان کر دیتاہے انسان ہویا حیوان ہر ایک کو ہی اپنی جان بہت پیاری ہوتی ہے جہاں انسان یا جیوان کو ذرا سا خطرہ محسوس ہوتا ہے فوری طوری پر اپنی جان بچانے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں ۔آج کل کینسر ایک مہلک مرض ہے کینسر کا علاج موجود ہے لیکن بہت کم چانس ہوتے ہیں بچنے کے اس کے باوجود انسان پوری کوشش کرتا ہے کہاس کیا علاج ہوجائے کسی طرح سے بھی ہو اس کی جان بچ جائے ۔اسی طرح اگر کسی گھر میں ڈاکو آجاتے ہیں وہ گن نان کر کہتے ہیں گھر کا سارا سامان مجھے دے دو ورنہ میں تم لوگوںکو جان سے مار دوں گا یہاں تک کے اس سامان میں ان کی بیٹی کاجہیز بھی ہوتا ہے جو ایک ایک پائی جوڑ کر بنایاہوتا ہے لیکن اپنی جان کیلئے انسان فوری سارا سامان ان ڈاکوﺅں کے حوالے کر دیتا ہے ۔اس طرح کی بے شمار مثالیںہیں جن میں اپنی جان بچانے کے لیئے کچھ بھی کرنے کو تیارہو جاتا ہے ان تمام باتوں سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ انسان زندہ رہنا چاہتا ہے انسان جینا چاہتا ہے انسان کو موت سے ڈر لگتا ہے ۔ موت کا نام سنتے ہی انسان کے اندر ایک سنسنی خیز لہر دوڑ جاتی ہے موت کے نام سے انسان گھبرا جاتا ہے ۔

اگر کسی کو مذاق میں بھی کہہ دیاجائے کہ اللہ کرے تو مر جائے تو وہ فوری کہتا ہے اللہ نہ کرے ایسا ہو ۔زندگی سے سے بے حدپیار کرنے والا انسان جو کہ ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا ہے ۔جس مثال یہ ہے کہایک ،اں اپنے بچے کو ہزاروں سال جینے کی دعا دیتی ہے ان تماباتوں کا جو حاصل ہے اس سے واضح طور پر یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ایک انسان کبھی نہیں چاہیئے گا اسے موت آئے ۔انسان موت کب مانگتا ہے ؟ ایک خوشحال صحت مند انسان کو تومرنے کا تصور ہی بہت برا لگتا ہے موت وہی انسان مانگتا ہے جو اپنی زندگی سے تنگ ہوتا ہے اس لیئے اس کا خیال ہوتا ہے کہ اس زندگی میں تو شائد کچھ نہیں رکھا شائد مر کر ہی قرار آجائے ۔انسان کی اس مایوسی کی بے شمار وجوہات ہوتی ہیں کوئی غربت کے ہاتھوں تنگ آکر موت کی آغوش میں ٓنا چاہتا ہے کوئی کسی انسان کے ستائے جانے پر مرنا چاہتا ہے اس طرح کی بے شمار وجوہات ہیں جن کی وجہ سے انسان موت کو گلے لگانا چاہتا ہے ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق ہر سال خود کشی کرنے سے جن افراد کی موت واقع ہوتی ہے ان کی تعداد 8لاکھ سالانہ ہے اور ہر 40سیکنڈ میں ایک فرد خوکشی کرتا ہے اور خود کشی کرنے والوں کی زیادہ تعداد15 سے29سال تک کے افرد کی ہے اگرچہ اعلٰی آمدنی والے ممالک میں خود کشی ذہنی امراض یا الکوحل کے بہت زیادہ استعمال کا نتیجہ ہے زندگی میں ہونے والی پریشانیوں کا مقابلہ نہ کر پانا جیسے مالی مشکلات میاں بیوی میں ناچاقی ماں باپ کی بے جا ڈانٹ ڈپٹ ، عشق میں ناکامی جیسے واقعات خود کشی کی واجہ بنتے ہیں ۔

ان واقعات کے رونما ہونے میں دوسرے انسان کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔جیسے میاں بیوی میں لڑائی جھگڑا رہتا ہے شوہر بیوی کو ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے مارتا پیٹٹا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بیوی شوہر کی بدسلوکی کی وجہ سے خود کشی کر لیتی ہے اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے شوہر کی بدسلوکی نے اسے جینے کی امنگ چھین لی۔جب بھی کہیں خود کشی ہوتی ہیں اس کی تحقیق کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہاس کی وجہ ابنِ آدم یا بنت ِ حوا ہے کچھ لوگوں میں مشکلات و حالات سے لڑنے کی اتنی قوت ہوتی ہے کہ وہ حالات کو بدل دیتے ہیں لیکن جو لوگ حلات کا مقابلہ نہیں کر پاتے ہر بات کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں لوگوں کے رویے ان کو خود کشی کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں ایسے لوگوں کو پیار محبت اور شدید توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔اگر ایسے لوگوں کو توجہ نہ دی جائے تو یہ اپنی زندگی سے اس قدر مایوس ہو چکے ہوتے ہیں کہ ذرا ذرا سی بات پر موت کو گلے لگانے سے گریز نہیں کرتے۔اس دنیا میں انسان جیتا بھی انسانوں کیلئے ہے اور مرتا بھی ان انسانوں کی وجہ سے ہی ہے۔

اصل میں دیکھا جائے تو خود کشی ہمیشہ بزدل انسان کرتے ہیں،جن میں اس معاشرہ میں درپیش مسائل کا سامنا کرنے کی قوت نہیں ہوتی جن میں اتنی قوت نہیں ہوتی اس معاشرہ سے ٹکرا سکیں اس لیئے ایسان انسان خود کو موت کی آغوش میں دینا ہی بہتر سمجھتا ہے حالانکہ اگر انسان ان مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے تو وہ ان تمام مشکلات کو مات دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے کیوں کہ قدرت نے ایک انسان کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے، لیکن انسان جب جلد مایوسی کا شکار ہوتا ہے تو زندگی کی بازی ہار جاتا ہے ہر انسان تب ہی موت کو گلے لگاتا ہے جب یہ معاشرہ اسے چین سے جینے نہیں دیتاتو ہی کوئی بھی انسان موت کو گلے لگاتا ہے ورنہ زندگی ہر انسان ہر جانور کو بہت عزیز ہے کوئی نہیں چاہتا کہ اتنی جلدی اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے جب تک ایسے حالات پیدا نہ ہو کہ اسے مرنے کے علاوہ کوئی صورت ہی نظر نہ آئے اور وہ موت کو گلے لگا لے لیکن خود کو موت کے حوالے کرناوئی حال نہیں حالات سے لڑنا ہی اس کا حل ہے بقول شاعر
اب تو گھبرا کر کہتے ہیں مر جائیں ہم
مر کر بھی چین نہ پایا تو کہاں جائیں گے
ای میل: iazhar977@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *