South Asian women concern over US supreme court decision regarding abortionتصویر سوشل میڈیا

واشنگٹن:(اے یو ایس )امریکی سپریم کورٹ کے اہم فیصلے سے خواتین کو حاصل اسقاط حمل کے حقوق وفاقی سطح پرختم ہونے کے بعد، امریکہ میں اس فیصلے پر گرما گرم بحث جاری ہے۔امریکہ میں مقیم جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی کے بعض لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس طرح کے عدالتی فیصلے مستقبل میں اقلیتی برادریوں اور خواتین کے حقوق کو محدود کرنے کے راستے کھول سکتے ہیں۔وائس آف امریکہ کو نام اور شناخت نہ بتانے کی شرط پر ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری خاتون ثنا (فرضی نام) نے کہا کہ غربت کی وجہ سے وہ تیسرا بچہ پیدا نہیں کرنا چاہتی تھیں اس لیے تیسری مرتبہ حاملہ ہونے کے فوراً بعد ہی انہیں ابارشن کا فیصلہ لینا پڑا۔

ریاست کیلی فورنیا میں مقیم ثنا کی عمر اس وقت 27 برس تھی جب انہوں نے اسقاط حمل کا فیصلہ کیا تھا۔ثنا کے بقول ہم نئے نئے امریکہ آئے تھے۔ میرے پاس نوکری نہیں تھی ابھی ملازمت بھی نہیں ملی تھی میرے وسائل نہیں تھے۔ گھر میں کھانا کھانے کے لیے پیسے نہیں تھے، میں تیسرا بچہ کیسے پیدا کرتی؟ اس کی ضروریات کیسے پوری ہوتیں۔ ا س لیے مجھے یہ مشکل قدم اٹھانا پڑا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شکر ہے شوہر نے میرا ساتھ دیا مگر ساس اور والدہ نے بہت کوشش کی کہ میں یہ فیصلہ ترک کردوں لیکن میں نے ایسانہیں کیا۔ ثنا اب اپنا کاروبار چلاتی ہیں اور ان کے دونوں بچے شادی شدہ ہیں۔ وہ اپنے فیصلے سے آج بھی مطمئن ہیں۔اسقاط حمل کے حق کو تخفظ فراہم کرنے والی ریاست کیلی فورنیا میں انہیں ابارشن کروانے میں کوئی دقت نہیں ہوئی مگر اب وہ ان خواتین کے لیے پریشان ہیں جن کا تعلق ان ریاستوں سے ہے جہاں اسقاط حمل کے خلاف قانون یا تو سخت کردیا گیا ہے یا ہونے والا ہے۔

ثنا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے خواتین سے یہ حق چھین کر خواتین کے حقوق کی مہم کو ٹھیس پہنچائی ہے یہ ہماری مرضی ہونی چاہیے کہ ہم اپنے حالات دیکھتے ہوئے فیصلہ کریں کہ ہمیں اپنے حمل کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ ہمیں معلوم تو تھا کہ سپریم کورٹ کچھ ایسا ہی فیصلہ کرنے جا رہی ہے مگر اس فیصلے کے آنے کے بعد مجھے مایوسی ہوئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *