Strategy of taking part in senate bye elections now openتصویر سوشل میڈیا

قادر خان یوسف زئی

پاکستان ڈیمو کرٹیک موومنٹ (پی ڈی ایم ) کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی حکمت عملی سامنے آچکی کہ حکمراں جماعت کے لئے کوئی ’میدان خالی نہیں چھوڑا جائے گا ۔ بظاہر حزب اختلاف کا لانگ مارچ و اجتماعی استعفے بھی سرد موسم سے بہار کی جانب بڑھتے نظر آرہے ہیں۔پی ڈی ایم کو پہلے محاذ میںجزوی ناکامی کا سامنا ہوا ، جسے حکمراں جماعت اپنی بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں نے احتجاجی جلسوں کا جو شیڈول طے کیا تھا ، اس پر انہوں نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا ، تاہم اس پہلو سے سب کو آگاہی حاصل تھی کہ جلسے جلوس سے حکومت کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ۔ لیکن ایک سیاسی دباﺅ کے لئے کارکنان کو اکھٹا کرنے کی مشق کی گئی جو حکومت کے تئیں رائیگاں چلی گئی، سیاسی پنڈتوں کے مطابق پی ڈی ایم اپنے پروگراموں پر منظم منصوبہ بندی کرنے میں فیصلہ سازی کی قوت کے فقدان میں نظر آئی۔

پی ڈی ایم قائدین حکومت گرانے اور سینیٹ الیکشن رکوانے کی حکمت عملی پر متفق نہ ہوسکے اور بتدریج سیاسی صورتحال اس وقت یہ بن چکی ہے کہ سینیٹ انتخابات اپنے شیڈول کے مطابق ہوتے نظر آرہے ہیں ، قبل ازوقت استعفے دے کر سینیٹ الیکٹرول ووٹ توڑنے کی حکمت عملی غیر موثرلگتی ہے۔احتجاجی جلسوں میں بد نظمی ، رابطوں کا فقدان کی وجہ سے عوام کو طویل دھرنے و لانگ مارچ میں متحرک کرنے کی سیاسی کوشش، سرد و سخت موسم کے باعث کامیاب نظر نہیں آتی ، کیونکہ2014 میں پاکستان عوامی تحریک کا سخت سرد موسم میں دو ماہ کا دھرنے کاناکام تجربہ سب کے سامنے ہے ، غالباََ مولانا فضل الرحمن کو اپنے کارکنان پر یقین ہے لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نومبر2019کے آزادی مارچ سے انہوں نے ” ناگزیر “ وجوہ کی بنا پر واپسی کی راہ اختیار کی تھی کیونکہ وہ بند گلی میں داخل ہوچکے تھے، اگروہ آزادی مارچ کو دھرنے میں تبدیل کردیتے تو ان حالات میں پر امن احتجاج تشدد کے کسی بھی ناگہانی واقعے کی جانب مڑسکتا تھا ۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے مظاہرے یا کسی جماعت کے کارکنان کا مشتعل ہوجاناغیر معمولی نہیں سمجھا جاتا ، جتنا مولانا فضل الرحمن کی مذہبی شخصیت ہونے کی وجہ سے کارکنان کا مشتعل ہوجانا ، جمہوریت کے لئے خطرہ بن سکتا تھا ۔مولانا نے صائب فیصلہ کیا تھا کہ واپسی کی راہ لی ، ہر چند کہ ان کے پاس دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں تھا ، اگر وہ متبادل راستے کو استعمال کرنے کی اجازت دے دیتے توشاید ان کے لئے بھی حالات کو قابو کرنا ممکن نہیں تو دشوار ضرور ہوجاتا ۔ پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد مولانا فضل الرحمن ، جس قسم کی سیاسی حکمت عملی پر مصر تھے ، اس پر من و عن عمل ممکن نظر نہیں آرہا تھا، کیونکہ مولانا کے پاس کھونے کے کچھ نہیں تھا ، جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست ساکھ پر لگ ہوئی ہے ، بالخصوص پی پی پی ، سندھ حکومت کی قربانی دینے کے لئے بڑافیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہتی ہے کیونکہ موجودہ سیاسی حالات ، انتخابات کے حوالے سے ان کے لئے آئیڈیل نہیں ، اس کا اندازہ انہیں گلگت بلتستان الیکشن میں ہوچکا تھا کہ وہ جس قسم کے انتخابات کا تصور کررہے ہیں ، اس کے لئے انہیں مزید انتظار کرنا ہوگا اور پارٹی سٹرکچر کو بھی مضبوط بنانا ہوگا ۔ یہی کچھ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مسئلہ درپیش ہے کیونکہ پنجاب میں گروپ بندی کی واضح تقسیم بتا رہی تھی کہ پارٹی مزید انتشار کا شکار ہوسکتی ہے ، اس لئے اب پارٹی قائدین کے بیانات کا جائزہ لیں تو پی ڈی ایم جلسوں میں کی گئی تقاریر سے برخلاف اور مختلف توجہات پیش کی جا رہی ہیں۔

مملکت میں سیاسی برداشت کا کلچر مضبوط ہونے میں ابھی کافی وقت درکار ہے ، اسی طرح جب تک انتخابی اصلاحات کا عمل متفقہ طور پر منظور نہ ہو ، اُس وقت تک کوئی بھی الیکشن کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے منصفانہ و شفاف نہیں ہوں گے ، جو جماعت بھی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوگی وہ دھاندلی کے الزامات ضرور لگائے گی ۔ اس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی ۔ حکومت گرانے کے لئے حالات، کسی طور سیاسی جماعت کے حق میں موافق نہیں ، کیونکہ ایوان اقتدار اس حوالے سے اپنی حکمت عملی پر گامزن اور چھوٹی جماعتوں کے ان گنت تحفظات کے باوجود اِن ہاﺅس تبدیلی کے بھی آثاربظاہر نہیں آرہے ۔ یہ مرحلہ حزب اختلاف کے لئے پریشان کن ضرور ہے ، لیکن سیاسی پنڈتوں کے نزدیک اپوزیشن اچھی طرح جانتی ہے کہ جس طرح وہ ان ہاﺅس تبدیلی لانے کے لئے ایک صفحے پر اکھٹے نہیں ہوسکتے ، اسی طرح حکمران جماعت کے اتحادی اپنے سیاسی مستقبل کے خاطر آزمائے ہوئے کو مزید آزمانے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔

پی ڈی ایم کی تحریک کا دوسرا مرحلہ ماہ اپریل کے بعد حقیقی رنگ میں آسکتا ہے ، لیکن پر امن تحریک کی صورت میں موجودہ حکومت کو پہلے بھی خطرہ نہیں تھا اور نہ آگے ہوگا۔اجتماعی استعفیٰ دینے کا مقصد صرف سینیٹ انتخابی الیکڑول کالج کو توڑنا تھا،اگر سینیٹ کے انتخابات وقت پر ہوگئے تو بعد میں استعفیٰ دے بھی دیں تو آئینی تاخیری طریقے کار اختیار کرکے ضمنی انتخابات کرانا حکومت کے لئے مشکل نہیں ہوں گے ۔ بظاہر نہیں لگتا کہ اس بار سینیٹ انتخابات میں ماضی کی روایات کے مطابق سیاسی وفاداریوں کے سودے بڑے پیمانے پر کئے جائیں، کیونکہ اس سے حکومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ، لیکن اس طرح چھانگے مانگے کی سیاست کے دوبارہ آنے سے ایوانوں کی رہی سہی وقعت بھی ختم ہوجائے گی۔

حزب اختلاف اپنی احتجاجی تحریک کو نظام کی تبدیلی کی کوشش قرر دیتے ہیں کہ ان کا مقصد اقتدار کا حصول نہیں ، تو پھر نظام کی تبدیلی کے لئے پورے سیاسی ڈھانچے کو ہی تبدیل کرنا ہوگا ، کیونکہ موجودہ سیاسی نظام کسی بھی پارلیمانی روایات کی ترجمانی کرتا نظر نہیں آرہا ۔ یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ کسی بھی نظام کو تبدیل کرنے کی تحریک چند ہفتوں ، مہینوں یا برسوں میں کامیابی حاصل نہیں کرتی بلکہ اس کے لئے آگ کے دریا سے گزرنا پڑتا ہے۔ فی الحال تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے ، لہذا پی ڈی ایم اپنے دوسرے مرحلے کی ابتدا کرنے سے قبل اپنی سیاسی اسٹریجی کو پھر سامنے رکھتے ہوئے زمینی حقائق کے مطابق فیصلہ کرے ، پارلیمنٹ اب بھی ان کے پاس ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں سے وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں تاہم دیکھنا ہے کہ وہ اب کس سمت جاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *