Student killed after police open fire on car in Quettaتصویر سوشل میڈیا

کوئٹہ : (اے یو ایس)پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں ایک نوجوان کی مبینہ پولیس فائرنگ سے ہلاکت کے بعد صوبائی حکومت نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔بدھ کو کوئٹہ کی سریاب روڈ پر ایگل اسکواڈ کی مبینہ فائرنگ سے فیضان جتک نامی نوجوان ہلاک ہو گیا تھا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق پولیس اہلکاروں نے فیضان جتک کو رکنے کا اشارہ کیا تھا اور گاڑی نہ روکنے پر ان پر فائرنگ کر دی۔

ہمارے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق اس واقعے میں ملوث چار اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔واضح رہے کہ بلوچستان بالخصوص کوئٹہ میں سکیورٹی صورتحال نازک ہے اور یہاں اکثر و بیشتر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے ہوتے رہتے ہیں۔گذشتہ ماہ 21 اپریل کو کوئٹہ کے سرینا ہوٹل کی پارکنگ میں خودکش دھماکہ ہوا تھا جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے، اس واقعے کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے صوبے بھر میں سکیورٹی مزید سخت کرنے کے اعلانات کیے گئے تھے۔اس واقعے کی ایف آئی آر اسی واقعے میں زخمی ہونے والے نوجوان شہزاد کی مدعیت میں سریاب پولیس سٹیشن میں درج کی گئی ہے۔ شہزاد نے پولیس کو بتایا کہ وہ اپنے چچا زاد بھائی فیضان کے ہمراہ گاڑی میں جناح ٹاو¿ن سے سریاب روڈ سے اپنے گھر کی جانب جا رہے تھے کہ سدا بہار ٹرمینل کے پاس ایگل ا سکواڈ کے چار اہلکاروں نے ان کی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی۔

شہزاد نے ایف آئی آر میں مؤقف اختیار کیا کہ جوں ہی وہ تھوڑا آگے گئے تو ان اہلکاروں نے فائرنگ کی جس میں وہ زخمی ہو گئے جبکہ ان کا کزن فیضان ہلاک ہوا۔سریاب تھانے کے ایس ایچ او خیرمحمد نے بتایا کہ فائرنگ کے الزام میں ایگل سکواڈ کے چار اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا ہے۔اس واقعے کے بعد علاقہ مکینوں اور رشتہ داروں نے سریاب روڈ پر مظاہرہ کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ہلاک ہونے والے نوجوان نے گاڑی نہیں روکی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر گاڑی نہیں بھی روکی گئی تو پولیس اہلکار گاڑی کے ٹائروں کو گولی مار سکتے تھے مگر اس کے برعکس سیدھی فائرنگ کی۔بلوچستان حکومت نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور صوبائی وزیرداخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے فیضان جتک کی ہلاکت کا نوٹس لیا ہے۔میر ضیا اللہ لانگو کے مطابق واقعے کی شفاف تحقیقات کے لیے سینیئر سپرینٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یقین دہانی کروائی ہے کہ متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کیا جائے گا اور ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی۔اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے شدید ردِ عمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔لعلین محمد شاہی نامی صارف نے لکھا کہ ’پولیس کو ا سنیپ چیکنگ کے دوران لوگوں کو قتل کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے۔‘ ا±نھوں نے اسے ایک بڑا نقصان قرار دیا۔ولید بزنجو نامی صارف نے لکھا کہ ’گاڑی نہ روکنے پر سزائے موت؟ یہ کیسا نظامِ انصاف ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *