خرطوم:( اے یوایس ) سوڈان کی حکومت اور ملک کے مسلح باغی گروہوں کے اتحاد (ایس آر ایف) کے درمیان کافی عرصے سے متوقع امن معاہدے پر بالآخر دستخط ہوگئے ہیں۔اس کا مقصد سوڈان میں دہائیوں سے جاری لڑائی کو ختم کرنا ہے جن میں لاکھوں افراد ہلاک اور دس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے ہیں۔سوڈان کے قومی ٹی وی چینل نے اسے ایک تاریخی معاہدہ قرار دیا ہے ۔
امن معاہدے میں جن اہم نکات پر اتفاق ہوا ہے ان میں سکیورٹی، زمین کی ملکیت، عبوری نظامِ عدل، اقتدار میں شراکت اور جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی واپسی شامل ہے۔اس کے علاوہ مسلح باغی گروہوں کو ختم کر کے انھیں ملک کی فوج میں شامل کیا جائے گا۔اپریل سنہ 2019 میں تیس سال تک ملک میں برسر اقتدار رہنے والے صدر عمر البشیر کو ان کے عہدے سے ہٹا کر حراست میں لے لیا گیا تھا۔فوج نے ملک کے انتظامی امور سنبھال لیے تھے اور کہا تھا کہ دو سال کے عرصے میں ملک میں انتقال اقتدار کے عمل کو مکمل کرنے کے بعد عام انتخابات ہوں گے۔
معاہدے کی تقریب کو لائیو نشر کیا گیا۔ ٹی وی چینل پر بریکنگ نیوز بھی چلی کہ: ‘بریکنگ: جوبا (جنوبی سوڈان کے دارالحکومت) میں امن معاہدے پر دستخط کے بعد جشن کی تقریب جاری ہے۔’اس تقریب میں صومالیہ، چاڈ اور جبوتی کے صدور، ایتھوپیا کے وزیر اعظم، جنوبی سوڈان کے صدر سلوا کِیئر مائردیت، اقوام متحدہ کے اہلکار، درافور میں اقوام متحدہ کے امن مشن کے حکام اور دیگر خاص شخصیات موجود تھیں۔خودمختار کونسل کے وائس چیئرمین لفٹیننٹ جنرل محمد ہمدن نے حکومت کی طرف سے دستخط کیے اور ایس آر ایف کے چیئرمین الہادی ادریس سمیت 10 مسلح جنگجو گروہوں نے بھی معاہدہ تسلیم کرتے ہوئے دستخط کیے۔
جنوبی سوڈان، چاڈ، متحدہ عرب امارات، دارفور میں اقوام متحدہ کے پیس کیپنگ مشن نے معاہدے پر ضامن کے طور پر دستخط کیے۔سوڈان کے درافور، کورڈوفان اور نیلے نیل کے علاقوں میں عبوری حکومت کے لیے جھڑپیں ختم کرنا اہم تھا۔ اپریل 2019 میں یہ حکومت اقتدار میں آئی تھی جب فوج نے صدر عمر البشیر کی حکومت کا تخت الٹ دیا تھا۔آج دستخط کیے جانے والے امن معاہدے تک پہچنے میں جنوبی سوڈان نے بھی سوڈان کی مدد کی ہے۔جولائی 2011 میں جنوبی سوڈان ایک علیحدہ ملک کے طور پر وجود میں آیا تھا۔
جبکہ شمالی سوڈان یعنی موجودہ سوڈان امیر، زیادہ تر عربی زبان بولنے والے اور مسلمان آبادی پر مشتمل تھا۔جنوبی حصہ برسوں سے لڑائی میں گِھرا رہا اور اسے نظر انداز کیا جاتا رہا۔ شمالی سوڈان کے مسلم رہنماؤں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جنوبی سوڈان کی شکل میں تشکیل پانے والے نئے ملک کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے جس کی زیادہ تر آبادی یا تو عیسائی ہے یا دیگر روایتی مذاہب کی پیروکار ہے۔تاہم جنوبی سوڈان کے لیے آزادی حاصل کرنے والی تنظیم پیپلز لبریشن موومنٹ جو حکمران جماعت بھی ہے آپس میں اختلاف کا شکار ہو گئی اور یہ نیا ملک بھی خانہ جنگی کا شکار رہا۔