ان دنوں پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ، کراچی جسے ملک کی معیشت کا دارالحکومت کہا جاتا ہے، اور راولپنڈی کے جہاں کہ آرمی ہیڈکوارٹر واقع ہے ،درمیان چکر لگانے میں مصروف ہیں۔ کوویڈ۔19 وبا نے نہ صرف پاکستان کی معیشت کو متاثر کیا ہے بلکہ بین الاقوامی توجہ کو بھی اپنے پسندیدہ موضوع کشمیر سے بھٹکادی ہے۔ لہذا ، اس کی فوج نے ان دو چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مرکزی کردار ادا کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔عالمی وبا سے پہلے ہی پاکستان کی معیشت مائل بہ زوال ہونا شروع ہو گئی تھی۔ دہشت گردی کی مالی اعانت پر نظر رکھنے والے کے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا،جس نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا تھا اور پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی تھی، دباو¿ تھا ۔ اسی دوران 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر میں ہندوستان کی جانب سے آرٹیکل 370 منسوخ کرنے کے بعد دہشت گردی تنظیموں میں بوکھلاہٹ مچ گئی ۔گذشتہ اکتوبر میں معیشت کی سست روی سے نمٹنے کی راہوں پر تبادلہ خیال کے لیے باجوہ نے کراچی میں کاروباری رہنماو¿ں اور سرکاری مالیاتی عہدیداروں سے ملاقات کی تھی ۔ ملک کے معاشی انتظام میں فوج کا بڑھتا ہوا کردار اس وقت واضح ہو گیا جب اس اجلاس کے بعد فوج نے ایک بیان جاری کیا۔ باجوہ نے کہا کہ قومی سلامتی اور معیشت میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور خوشحالی کے لئے سلامتی کی ضروریات اور معاشی نمو میں توازن ہونا چاہئے۔
دسمبر میںپاکستان کی انٹر سروسز انٹلیجنس(آئی ایس آئی) نے جیش محمد کے آپریشنل کمانڈر مفتی عبدالرو¿ف اصغر ، جیش محمد کے بانی مولانا مسعود اظہر کے بھائی ، جیسے بڑے دہشت گرد کمانڈروں سے راولپنڈی میں ملاقات کی۔ کمانڈروں کو بتایا گیا تھا کہ حکومت دہشت گرد تنظیموں پر پابندیوں میں نرمی کرے گی۔ چند ماہ بعد ، جب دنیا کوویڈ 19 سے نمٹنے میں مصروف تھی ، پاکستان نے خاموشی کے ساتھ تقریباً 1800 دہشت گردوں کو اپنی نگرانی کی فہرست سے ہٹادیا۔ چونکہ وبائی بیماری نے پاکستان کے معاشی بحالی منصوبوں کے درہم برہم ہونے کا خطرہ پیدا کر دیا تو باجوہ اور اس کے حامی فوجی بجٹ کے تحفظ کے لئے اپنے فوجی منصوبے کامیاب بنانے کے لئے بے چین ہو اٹھے۔ حال ہی میں ، پاکستان کے فوجی ترجمان نے ٹویٹ کیا تھا کہ سلامتی داو¿ پر لگا کر فوجی بجٹ میں”رضاکارانہ تخفیف“ نہیں کی جائے گی۔ ایک ایسے ملک کے لئے جو طویل عرصے سے دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کے آلے کے طور پر استعمال کررہا ہے ، ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔
انٹلیجنس اطلاعات سے انکشاف ہوا ہے کہ موسم سرما کے دوران وادی کشمیر میں دہشت گردوں کی جلد در اندازی سہل بنانے کے لئے پاکستان کے مقبوضہ کشمیر میں ایک درجن لانچنگ پیڈ فعال ہیں۔ مبینہ طور پر پیڈ یہ ہیں: حلمتم ، نیکروم ، تاو¿بیت ، سوتی ، زیارت ، سونار ، ڈکی ، شاردا ، راٹا پانی ، دودھنیال ، قاسم -2 اور لیپا چھم۔مبینہ طور پر گذشتہ اگست سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں دہشت گردوں کی دراندازی کے لئے کی جاتی رہی ہیں۔ سرکاری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اس سال جنگ بندی کی 17 خلاف ورزیاں ہوچکی ہیں جن میںجنوری میں ایک ، فروری میں سات ، مارچ میں تین اور اپریل میں چھ خلاف ورزیاں کی گئیں۔دی ویک کو موصول خفیہ اطلاعات سے انکشاف ہوا ہے کہ لانچنگ پیڈ پر 450 دہشت گرد در اندازی کے لیے پر تول رہے ہیںجن میں 380 پاکستانی شہری ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ باجوہ نے تیاریوں اور اسلحہ کا جائزہ لینے کے لئے 30 اپریل کو لائن آف کنٹرول کا دورہ کیا تھا۔سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ بیشتر دہشت گرد پہلے ہی کشمیر میں داخل ہوچکے ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق کشمیر میں تقریباً 240 کے قریب دہشت گرد موجود ہیں۔ 120 پاکستانی شہری ہیں جن میں لشکر طیبہ اور جیش محمد کے60-60 دہشت گرد ہیں۔ 2 مئی کو دو جنگجوو¿ں نے شمالی کشمیر کے ہندواڑہ میں سیکیورٹی فورسز کو 12 گھنٹے تک الجھائے رکھا ، جس کے نتیجے میں فوج کے چار اہلکار اور ایک پولیس سب انسپکٹر ہلاک ہوگئے۔
دو دن بعد اسی علاقے میں ایک اور تصادم میں سی آر پی ایف کے تین اہلکار ہلاک ہوگئے۔ جب کہ سیکیورٹی فورسز نے حزب المجاہدین کے کمانڈر ریاض نائکو کو ہلاک کرکے ہندواڑہ دہشت گردانہ حملہ کا انتقام لے لیا لیکن اس سے شایدیہ بات یقینی نہیں ہو سکتی کہ وادی میں تشدد میں کمی واقع ہو جائے گی۔ پاکستان کے سابق سفیر متعین امریکہ حسین حقانی نے کہا ہے کہ اس بات کا کوئی ہ امکان نہیں ہے کہ پاکستان دہشت گردی کو پالیسی کے طور پر استعمال کرنا ترک کر دے گا اور جب تک یہ جاری رہے گا ہندوستان کے لیے وادی میں امن برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی دراندازی میں اضافہ کے لیے مختلف تنظیموں کے دہشت گردوں کو ایک واحد گروپ کے طور پر بھیج رہا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ڈنگر پورہ میں ہوئے ایک تصادم میں جو دو دہشت گرد ہلاک ہوئے ان میںایک حزب المجاہدین کا اور دوسرا جیش محمد کا تھا۔ اس کے علاوہ دہشت گردانہ حملوں میں سرکاری حمایت کو مخفی رکھنے کے راولپنڈی منصوبے پر عمل کرتے ہوئے ایف اے ٹی ایف اور عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے لئے مزاحمتی محاذ اور تحریک ملت اسلامی جیسی نئی مقامی تنظیمیں پیدا کی گئیں۔
حقانی نے دی ویک کو بتایا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب پاکستان دہشت گردی ترک کیے بغیر مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھانے کے مقصد کی تکمیل نہیں کرسکتا ہندوستان بھی کشمیرکے جس کی حیثیت مرکزی علاقہ بنا کر کم کر دی گئی، لوگوں کادل جیتے بغیر معاملات طے نہیں کرسکتا۔جہاں ایک طرف مودی حکومت اور سلامتی دستے سیاسی اور انسان دوست کوششوں کے ذریعے کشمیریوں کے دل جیتنے کی کوشش کر رہی ہے وہیں دوسری جانب ہندوستانی فوجی سربراہ جنرل ایم راوانے نے کہا کہ خطے میں قیام امن کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ جب تک پاکستان ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی پالیسی ترک نہیں کردیتا ہم مناسب اور رست جواب دیتے رہیں گے۔انٹیلی جنس اطلاعات سے انکشاف ہوا ہے کہ پاکستانی فوج نے کنٹرول لائن کے قریب بھاری توپ خانے دستے تعینات کردیئے ہیں اور وہ عام شہریوں کو نشانہ بنانے سے بھی نہیں چوک رہے ہیں۔تاہم ہندوستانی فوج نے موسم گرما میں ہونے والی کارروائی کا خاکہکیا ہے۔
اس نے انسداد دراندازی گرڈ کو فعال کر دیا ہے جس میں کنٹرول لائن سے متصل ان چوکیوں کو کھولنا ہے جنہیں شدید برفباری کی وجہ سے سردیوں میں خالی کر دیا گیا تھا۔ مقامی کمانڈروں کو انٹلی جنس پر مبنی کارروائیوں کی قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اگرچہ پہاڑی سلسلہ انسانی حرکات و سکنات پر نظر رکھنے اوردر اندازی کی روک تھام کو ناممکن بنا دیتا ہے مگر انٹلیجنس پر مبنی امتناع اور پولیس کے ساتھ بر وقت رابطہ موثر ثابت ہورہا ہے۔ کشمیر میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کے دوبارہ آغاز سے جہاں سیکیورٹی اداروں کو اچھی خفیہ اطلاعات موصول ہو رہی ہیں وہیں دہشت گردوں کو پاکستان میں اپنے آقاو¿ں سے رابطہ کرنے میں بھی مدد مل رہیہے۔ ایک اور چیلنج ہے بالائی زمین نیٹ ورک کا ہونا ہے جو دہشت گردانہ حملوں کے لیے اسلحہ ، محفوظ ٹھکانے اور مالی امداد فراہم کرتا ہے۔ہندوستانی فوج کی جانب سے انسداد دہشت گردی کا ردعمل تنہا نہیں ہے ، بلکہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر شامل تمام ایجنسیوں کی صلاحیتوں کا مجموعہ ہے۔ ، “ایک افسر نے بتایا ہمارے مخالفین کو مناسب جواب دینے کے لئے ہمارے پاس جنگ سے کم متبادل بھی دستیاب ہیں۔مزید بر آں یہ کہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال نہ صرف کراچی اور راولپنڈی سرگرمیوں پر ہی نظر نہیں رکھے ہوئے بلکہ اسلام آباد کے حالات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں ۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی وزیر اعظم عمران خان کے مشیر اطلاعات کے طور پر حالیہ تقرری کو فوج اور عمران خان حکومت کے مابین اعتماد کے بڑھتے فقدان کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ فوج اب بھی گذشتہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سفارتی ذلت سے ملے اس زخم کوچاٹ رہی ہے جو جموں و کشمیر کوخصوصی درجہ دینے والی دفعہ 370کو منسوخ کرنے کے ہندوستان کے فیصلے کے خلاف کوئی حمایت حاصل کرنے میں عمران خان کی ناکامی سے ملا ہے۔ہندوستان پاک مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی بدامنی کو نہایت سنجیدگی سے دیکھ رہا ہے۔ وزارت داخلہ کے ذرائع نے بتایا کہ پاک مقبوضہ کشمیر کے عوام ہندوستانی حکومت سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ مداخلت کر کے ان کے انسانی حقوق کا تحفظ کرے۔انسانی حقوق کے ایک کارکن ڈاکٹر امجد ایوب مرزا نے کہا کہ امن و قانون کی صورتحال پر قابو پانے کی آڑ میں ، پاکستانی فوج نے گلگت بلتستان میں بھاری نفری بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مرزا نے،جن کا تعلق پاک مقبوضہ کشمیر سے ہے اور فی الحال برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں ، 30 اپریل کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس حکم پر تشویش کا اظہار کیا جس میں وفاقی حکومت کو گلگت بلتستان میں نگراں حکومت تشکیل دینے اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرانے کی اجازت دی ہے۔مرزا نے دی ویک سے کہا کہ اس امر کا خدشہ کہ عام انتخابات سے پاکستان نواز فوجی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوگی ، گلگت بلتستان کو پارلیمانی بل کے ذریعے ملک کا پانچواں صوبہ قرار دینے کے دروازے کھل جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستان کی حکومت پاکستان کے زیر تسلط علاقوں پر پھر اپنے دعویداری پیش کرے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف پاکستانی فوج کو مذاکرات کی میز پر لاکر ہی کیا جاسکتا ہے۔ ادھرہندوستان زیادہ فائدہ اٹھانے کے خطرات مول لے رہا ہے۔ ہندوستانی محکمہ موسمیات نے حال ہی میں پی او کے کے تحت گلگت بلتستان اور مظفرآباد کو اپنی موسمی پیش گوئی کی فہرست میں شامل کر لیا ۔ اس اقدام سے پاکستان پریشان ہواٹھا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے 8 مئی کو ایک بیان میں کہا کہ یہ یک مذموم دعوے کی حمایت اور ہندوستان کے غیر ذمہ دارانہ سلوک کا ایک اور ثبوت ہے ۔لیکن چونکہ فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایک پاکستانی ایوارڈ یافتہ صحافی طٰحہ صدیقی نے کہا ، ہندوستان کو اس موسم گرما سے آگے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بعد خطے میں سیاسی اور سماجی ماحول بدل گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان مقامی نوجوانوں کے ، خاص طور پر ان لوگوں کے جو ہندوستان کے حالیہ اقدامات سے خود کو اجنبی محسوس کرنے لگے ہیں، جذبات کے استحصال پر زیادہ توجہ دے رہا ہے ۔سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے ، پاکستان ان نوجوانوں کا ذہنی غسل کررہا ہے ، انہیں تربیت دے رہا ہے اور فنڈز اور اسلحہ فراہم کررہا ہے۔صدیقی کے مطابق گرمی ہو یا سردی ، کشمیر کی صورت حال اس وقت تک دہکتی رہے گی جب تک ہندوستان کشمیری عوام مفاد ملک کے مفاد سے ہم آہنگ نہیں کرتا ہے۔ اس وقت تک باجوہ اور اس کی فوج اپنی جنگی معیشت کو چلانے کے لئے پاکستان کی دفاعی اور خارجہ پالیسیوں کو آگے بڑھانا جاری رکھے گی۔
