Supreme Court declares deputy speaker’s ruling null and void, restores National Assemblyتصویر سوشل میڈیا

اسلام آباد:(اے یو ایس ) سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ تمام ججز کا متفقہ فیصلہ ہے، ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ غیر آئینی تھی جبکہ وزیر اعظم، صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس نہیں دے سکتے تھے۔عدالت عظمیٰ نے قومی اسمبلی کو بحال کرتے ہوئے اسپیکر کو ایوان زیریں کا اجلاس 9 اپریل بروز ہفتہ صبح 10 بجے بلانے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کی ہدایت کردی۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ووٹنگ والے دن کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا جبکہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہوگا۔سپریم کورٹ نے صدر مملکت کے نگراں حکومت کے احکامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔فیصلہ سنانے سے پہلے چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر کو روسٹرم پر بلایا اور استفسار کیا کہ الیکشن کے انعقاد کے بارے میں چیف الیکشن کمشنر آگاہ کریں۔فیصلے سے قبل سپریم کورٹ کے باہر حفاظتی اقدامات مزید سخت کردیے گئے اور پولیس کی اضافی نفری کو طلب کرلیا گیا جبکہ فواد چوہدری، فیصل جاوید، شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سمیت پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں کے متعدد رہنما فیصلہ سننے کے لیے عدالت عظمیٰ پہنچے۔

اس موقع پر وکلا اور پولیس اہلکاروں کے درمیان ہاتھا پائی دیکھنے میں آئی اور ہاتھا پائی کمرہ عدالت میں داخل ہونے کے دوران ہوئی۔فیصلہ سنائے جانے سے قبل چیف الیکشن کمشنر، سیکریٹری الیکشن کمیشن قانونی ٹیم کے ہمراہ طلب کیے جانے پر سپریم کورٹ پہنچے۔قبل ازیں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے اس معاملے پر لیے گئے از خود نوٹس اور متعدد فریقین کی درخواستوں پر آج مسلسل پانچویں روز سماعت کی۔سماعت کے آغاز میں پنجاب کی صورتحال کا تذکرہ ہوا، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے روسٹرم پر آکر عدالت کو بتایا کہ رات کو نجی ہوٹل میں تمام اراکین صوبائی اسمبلی نے حمزہ شہباز کو وزیر اعلی بنا دیا، سابق گورنر چوہدری سرور آج حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لیں گے۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ حمزہ شہباز نے بیوروکریٹس کا اجلاس بھی آج بلا لیا ہے، آئین ان لوگوں کے لیے انتہائی معمولی سی بات ہے۔اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے کہا کہ پنجاب کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیں گے، پنجاب کا معاملہ ہائی کورٹ میں لے کر جائیں، قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے۔بعد ازاں چیف جسٹس نے مسلم لیگ (ن) کے وکیل اعظم نذیر تارڑ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو روسٹرم سے ہٹادیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیر اعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں؟ صدر مملکت کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کا الیکشن اور تحریک عدم اعتماد کا معاملہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے، قومی اسمبلی بنتی ہی اس لیے ہے اس نے اپنا اسپیکر اور وزیر اعظم منتخب کرنا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ نے جس فیصلے کا حوالہ دیا ہے وہ حلف سے متعلق ہے، یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے، کہیں تو لائن کھینچنا پڑے گی۔صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا، عدالت نے جونیجو کی حکومت کے خاتمے کو غیر آئینی قرار دیا، عدالت نے اسمبلی کے خاتمے کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا۔جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟وزیراعظم آئین کے مطابق کام جاری رکھے ہوئے ہیں، نگراں وزیر اعظم کا تقرر کا عمل بھی جاری ہے، اس سب میں بحران کہاں ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے، ملک میں کہیں اور بحران ہو سکتا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن کا اعلان کردے، الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا، یہ قومی مفاد ہے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگر اسپیکر کی رولنگ حکومت اور وزیراعظم کی مدت کی توسیع کے لیے ہوتی تو بہت غلط ہوتا، موجودہ صورتحال میں وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کر کے انتخابات کا اعلان کردیا گیا، الیکشن کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی اقدام بدنیتی نہیں تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ منحرف اراکین کے باوجود تحریک انصاف اکثریت جماعت ہے، اگر اکثریتی جماعت سسٹم سے آو¿ٹ ہو جائے تو کیا ہوگا؟جمعرات کو کیس کی سماعت کے دوران بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ 20 فی صد ارکان نے جب تحریکِ عدم اعتماد پیش کر دی تو بحث کرانی چاہیے تھی۔ وزیرِ اعظم کو سب معلوم ہوتا ہے وہ ارکان سے پوچھتے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ فواد چوہدری 28 مارچ کو اعتراض کرتے تو کیا تحریک پیش کرنے سے پہلے مسترد ہو سکتی تھی؟اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک پیش ہونے کے وقت بھی مسترد ہو سکتی تھی۔ تحریکِ عدم اعتماد قانونی طور پر پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی۔انہوں نے مزید کہا کہ ایوان کی مجموعی ارکان کی اکثریت ہو تو ہی تحریک پیش کرنے کی منظوری ہوسکتی۔ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ اکثریت مخالفت کرے تو تحریک مسترد ہوگی۔

تحریک پیش کرنے کی منظوری کا ذکر اسمبلی رولز میں ہے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 55 کے مطابق اسمبلی میں تمام فیصلے ہاؤس میں موجود اراکین کی اکثریت سے ہوں گے۔ ووٹنگ کے لیے 172 ارکان ہونے چاہیے۔ لیو گرانٹ اسٹیج پر 172 ارکان کی ضرورت نہیں۔ آرٹیکل 55 کے تحت ایوان میں فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر لیو گرانٹ کے وقت 172 ارکان چاہیئں تو پھر تو بات ہی ختم ہو گئی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تحریک منظور کرنے کی اسپیکر نے رولنگ دے دی تو بات ختم ہو گئی۔ اسپیکر کے وکیل نے کہا رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا تو کیس ختم ہوگیا۔ تین اپریل کو بھی وہی اسپیکر تھا اور اسی کی رولنگ تھی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسمبلی کی تحلیل اصل مسئلہ ہے اس پر آپ کو سننا چاہتے ہیں۔تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تحریکِ عدم اعتماد نمٹانے کے بعد ہی اسمبلی تحلیل ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا ہے اسمبلی تحلیل اور اسپیکر کی رولنگ میں کتنے وقت کا فرق ہے۔قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے حوالے سے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک بات تو واضح نظر آ رہی ہے کہ رولنگ غلط ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب دیکھنا ہے کہ ?اب اگلا قدم کیا ہو گا؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ رولنگ کا دفاع نہیں کر رہے۔ ان کے خدشات نئے انتخابات کے حوالے سے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ قومی مفاد کو بھی عدالت نے دیکھنا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا۔ عدالت نے آئین کو مدِ نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔ کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا۔ عدالت نے یہ نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں۔ نتائج میں نہیں جائیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *