surge of terrorism incidents in pakistan-تصویر سوشل میڈیا

اسلام آباد،(اے یو ایس)پاکستان کے لیے 2013 دہشت گردی کے لحاظ سے بدترین سال تھا جب روزانہ لگ بھگ تین سے چار دہشت گرد حملے ہوتے تھے۔اعداد و شمار کے مطابق اس برس حملوں میں 2700 سے زائد افراد ہلاک جب کہ ہزاروں زخمی ہوئے اور املاک کا بھاری نقصان ہوا۔ماہرین کے مطابق 2023 کے رجحانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر رواں برس دہشت گردی کے لحاظ سے 2013 سے بھی بدتر ثابت ہو سکتا ہے۔سلمان جاوید دہشت گردی کے امور کے ایک ماہر ہیں اور ’پاک افغان یوتھ فورم‘ نامی غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ ہیں جو پبلک ڈپلومیسی کا ادارہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان جاوید کا کہنا تھا کہ رواں برس اب تک د ہشت گردی کے 300 سے زائد واقعات ہو چکے ہیں جن میں لگ بھگ 200 عام شہری اور 300 سیکیورٹی اہلکار دہشت گردوں کا نشانہ بنے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سلسلہ 2022 کی آخری چوتھائی سے شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔انہوں نے بتایا کہ 2013 میں زیادہ اموات عام شہریوں کی ہوئی تھیں لیکن رواں برس نشانہ بننے والے زیادہ تر سیکیورٹی اداروں کے اہلکار بنے ہیں۔ ان کے بقول ان حملوں میں تحریکِ طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی )، داعش اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) ملوث ہیں۔

خیال رہے کہ ٹی ٹی پی یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں اور املاک کو ہدف بنا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق شاید اس طرح ٹی ٹی پی عام شہریوں کی حمایت کے حصول کی خواہاں ہے۔انسدادِ دہشت گردی کے ماہرین حملوں میں اضافے کے کئی اسباب خیال کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کا خیال تھا کہ کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد صورتِ حال بند ل جائے گی کیوں کہ سابق افغان حکومتوں کے دور میں دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں اسلام آباد مخالف قوتوں سے مدد اور حمایت ملتی تھی اور وہ پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتے تھے۔ جب کہ اس وقت کی حکومتیں ان گروہوں اور ان کی کارروائیوں کو نظر انداز کر دیتی تھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *