پشاور: (اے یو ایس ) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور کے پولیس سٹیشن غربی کی حوالات میں ایک طالب علم کی ہلاکت کے بعد تھانے کے ایس ایچ او اور محرر پر مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ تھانے کے سارے عملے کو معطل کردیا گیا ہے۔سی سی پی او پشاور عباس احسن کے مطابق واقعہ کی غیر جاندار انکوائری اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ڈسڑکٹ سیشن جج سے جوڈیشل انکوائری کی درخواست کی گئی ہے۔
ہلاک ہونے والے لڑکے شاہ زیب کے والد خیال اکبر نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اتوار کے روز تقریباً دو بجے انھیں پولیس ا سٹیشن غربی سے فون کال موصول ہوئی کہ ان کا بیٹا ان کے پاس ہے جس کے بعد وہ فوراً تھانے پہنچے تو وہاں پر تقریباً تین، چار گھنٹے تک کھڑے رہے۔وہ بتاتے ہیں کہ ’اس کے بعد مجھے کہا گیا کہ میرے بیٹے نے حوالات میں خودکشی کرلی ہے اور ظالمانہ انداز میں نعش کو میرے حوالے کیا گیا۔ اس موقعے پر کسی پولیس اہلکار نے میرے ساتھ سیدھے منہ بات بھی نہیں کی۔ میرے بار بار پوچھنے پر بھی مجھے کہا جاتا کہ صبر کرو ابھی اعلیٰ حکام آتے ہیں وہ بات کریں گے۔‘شاہ زیب کے چچا مظفر آفریدی کا کہنا تھا کہ پولیس نے شاہ زیب کے والد کو دو بجے بلایا اور پانچ بجے کہا کہ بیٹے نے خودکشی کی ہے۔ ’اس کے بعد ہم تھانے میں شام سات بجے تک مطالبہ کرتے رہے کہ ہماری ایف آئی آر درج کی جائے مگر وہاں پر کوئی بھی اعلیٰ اہلکار موجود نہیں تھا۔ اس کے بعد جب ہم نے احتجاج شروع کیا اور پولیس پر انتہائی دباؤ پڑا تو اس کے بعد مقدمہ درج کیا گیا۔‘صوبے کی پولیس کے سربراہ ڈاکٹر ثنا اللہ عباسی اور سی سی پی او پشاور عباس احسن نے شاہ زیب کے گھر جا کر تعزیت کی ہے اور اس موقعے پر یقین دلایا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے اور ہر ممکنہ طور پر انصاف فراہم کیا جائے گا۔
خیال اکبر کا کہنا تھا کہ اب تو احتجاج بیٹے کی تدفین اور پوسٹ مارٹم کے لیے ختم کیا ہے مگر مجھے انصاف ہوتا نظر نہ آیا تو پھر دوبارہ احتجاج ہوگا۔ ’حکام دعوے نہیں ہمیں عملی طور پر کام کرکے دکھائیں۔‘شاہ زیب کے ساتھ کیا ہوا؟پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے شاہ زیب کو تاجروں کے ساتھ جھگڑا کرنے اور پستول تاننے کے ایک واقعے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر باقاعدہ مقدمہ درج کرکے انھیں حوالات میں بند کیا گیا تھا۔عباس احسن کے مطابق واقعے کی سی سی ٹی وی موجود ہے جسے جوڈیشنل انکوائری میں پیش کیا جائے گا۔اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک حوالات کی ایک سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہوئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک نوجوان حوالات میں اپنے گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کرتا ہے۔شاہ زیب کے چچا مظفر آفریدی کا کہنا تھا کہ جس ویڈیو کو وائرل کیا گیا ہے اس میں نظر آنے والا شاہ زیب نہیں لگتا ہے۔ ’اس کی جسامت اور کپڑے مختلف تھے لیکن اگر ایک لمحے کو تسلیم بھی کر لوں تو میرا سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ اتنے کم عمر بچے کو حوالات میں کیوں رکھا گیا تھا؟‘انھوں نے مزید سوال اٹھایا ہے کہ ’کیسے حوالات کے اندر اس کے پاس رسی بھی پہنچ گئی۔
اس نے خود کشی بھی کرلی اور کسی پولیس اہلکار اور پورے تھانے نے دیکھا بھی نہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس کے باپ کو اس کی لاش کے لیے فون کیا جاسکتا تھا تو جب پولیس اس کو گرفتار کررہی تھی اور اگر واقعی کوئی واقعہ ہوا تھا، تو ایک نابالغ بچے کے والد کو فی الفور اطلاع کیوں فراہم نہیں کی گئی تھی؟مظفر آفریدی کا کہنا تھا کہ سارے واقعے میں پولیس کا کردار مشکوک ہے۔ ’ہم بچے کی لاش کا پوسٹ مارٹم کروا رہے ہیں۔ میں نے لاش کو خود اور کئی لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس کے سر پر زخم کا نشان ہے اور خون جما ہوا ہے۔ اس کے بازوں پر بھی تشدد کے نشانات ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے بہت سے حقائق سامنے آئیں گے۔‘عباس احسن کا کہنا تھا کہ جوڈیشنل انکوائری کی گزارش کردی گئی ہے اور امید ہے کہ ان سارے سوالات کے جوابات جوڈیشنل انکوائری میں سامنے آجائیں گے۔خیال اکبر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کی خاطر دوبئی میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور کچھ عرصہ قبل چھٹیوں پر آئے تھے تاہم اب پروازیں بند ہونے کی وجہ سے پاکستان ہی میں پھنس گئے ہیں۔ شاہ زیب ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔خیال اکبر کا کہنا تھا کہ شاہ زیب اپنی کلاس کا لائق ترین طالب علم تھا۔ ان کے مطابق حالیہ امتحانات کے دوران اس نے دوسری پوزپیشن لی تھی جس پر وہ بہت خفا تھا۔ ’اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پہلی پوزیشن لے گا۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ میں اس کا بڑا بیٹا ہوں اس لیے مجھ پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جس وجہ سے زیادہ محنت کروں گا۔