دمشق: (اے یو ایس) شام میں جاری جنگ میں 2020 کے دوران میں کم سے کم 68سو افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔برطانیہ میں قائم شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق نے جمعرات کو گزرے سال کے دوران میں جنگ زدہ ملک میں تشدد کے مختلف واقعات میں ہلاکتوں کے اعداد وشمار جاری کیے ہیں۔اس کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک عشرے سے جاری جنگ کے دوران میں شام میں کسی ایک سال میں یہ سب سے کم ہلاکتیں ہیں۔
رصدگاہ کے اعدادوشمار کے مطابق شام میں 2019 میں تشدد کے واقعات میں 10 ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔2014 سب سے زیادہ ہلاکت آفریں سال ثابت ہوا تھا۔اس سال میں 76 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔رصدگاہ کا شام میں رضاکاروں ، طبی عملہ اور انسانی حقوق کے کارکنان پر مشتمل ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے اور وہ ان ہی کی فراہم کردہ اطلاعات کی بنیاد پر شام میں ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد جاری کرتی ہے۔بدھ کو داعش کے جنگجوؤں نے مشرقی صوبہ دیرالزور میں شامی فوجیوں کی ایک گاڑی پر حملہ کیا تھا۔ اس میں 37 فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔2019 کے اوائل میں داعش کی نام نہاد خلافت کے خاتمے کے بعد سے اس کا شامی فوج پر یہ سب سے تباہ کن حملہ کیا تھا۔
جنگ زدہ ملک میں 2011 کے اوائل میں صدر بشارالاسد کے خلاف احتجاجی مظاہروں سے شروع ہونے والی خانہ جنگی میں اب تک تین لاکھ 80 ہزار سے زیادہ افراد مارے جاچکے ہیں۔ان میں ایک لاکھ 17 ہزار سے زیادہ عام شہری ہیں۔ان میں 22 ہزار بچّے بھی شامل ہیں۔رصدگاہ نے قبل ازیں جنوری میں جنگ میں کام آنے والے افراد کے اعداد وشمار جاری کیے تھےاور ان کی تعداد تین لاکھ 80 ہزار سے زیادہ بتائی تھی۔رصدگاہ کے فراہم کردہ نئے اعداد وشمار کے مطابق تمام مہلوکین میں ایک لاکھ ساڑھے 30 ہزار حکومت نواز جنگجو اور فوجی بھی شامل ہیں۔ان میں نصف سے زیادہ شامی فوجی ہیں۔لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ سے تعلق رکھنے والے 1703 جنگجو مارے جا چکے ہیں۔
حزب اللہ شامی صدر کی حمایت میں 2013 سے باغی گروپوں کے خلاف لڑرہی ہے۔شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف پرامن مظاہروں سے شروع ہونے والی لڑائی میں 57 ہزار سے زیادہ غیر جہادی شامی جنگجو مارے گئے ہیں۔ساڑھے 67 ہزار سے زیادہ جہادی مارے گئے ہیں۔ان میں زیادہ ترکا تعلق داعش اور شام میں القاعدہ سے وابستہ سابقہ گروپ ہیئت تحریرالشام سے تھا اور ان میں کی ایک بڑی تعداد غیرملکی جنگجوؤں کی تھی۔داعش اور ترک فورسز کے خلاف لڑائی میں امریکا نواز شامی جمہوری فورسز (ایس ڈی ایف) کے ساڑھے 12 ہزار سے زیادہ جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔شامی رصدگاہ کا کہنا ہے کہ ان مہلوکین میں حکومت کے زیرانتظام جیلوں یا حراستی مراکز میں تشدد سے جان کی بازی ہارنے والے 88 ہزار افراد شامل نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ تنازع کے دوران میں اغوا کیے گئے ہزاروں افراد بھی شامل نہیں ہیں۔انھیں شامی فورسز نے اغوا کے بعد غائب کردیا تھا اور آج تک ان کا کچھ اتا پتانہیں چل سکا۔واضح رہے کہ 2011 کے اوائل میں شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کے پ±رامن احتجاجی مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاو¿ن کے نتیجے میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تھا اور پھر یہ مکمل جنگ میں تبدیل ہوگئی تھی۔ایک وقت میں بشارالاسد کی حکومت کی عمل داری میں شام کے صرف 30سے 35 علاقے رہ گئے تھے اور ملک کے باقی علاقوں پر مسلح جنگجو گروپوں نے قبضہ کرلیا تھا۔لیکن 2015 میں روس اور ایران کی فوجی مداخلت کے بعد شام میں جاری خانہ جنگی کا رخ تبدیل ہوگیا تھا اور بشارالاسد کی وفادار فوج ایران نواز ملیشیاؤں اور روس کی برّی اور فضائی فوج کی مدد سے باغیوں کے زیر قبضہ بیشترعلاقوں کو چھڑوانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
اس وقت اسد حکومت کی قریباً 70 فی صد علاقوں میں عمل داری قائم ہوچکی ہے اورصرف شمال مغربی صوبہ ادلب اور اس سے متصل دوسرے علاقوں پر باغی گروپوں کا قبضہ باقی رہ گیا ہے۔اس کے علاوہ شام کے شمال میں واقع سرحدی علاقے ترک فورسز کے کنٹرول میں ہیں جبکہ ملک کے شمال مشرقی علاقوں پر امریکا نواز کرد فورسز نے قبضہ کررکھا ہے۔شام میں جنگ کے عروج کے دنوں میں ملک کی نصف سے زیادہ آبادی بے گھر ہوگئی تھی۔اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت بھی قریباً 67 لاکھ شامی اندرون ملک در بدر ہیں جبکہ 55 لاکھ شامی بیرون ملک مہاجرین کے طور پر رجسٹر ہیں اور وہ ترکی ، اردن کے علاوہ مغربی ممالک میں بے وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
