Taliban attack Afghanistan's three big citiesتصویر سوشل میڈیا

کابل:(اے یوایس ) افغانستان کے جنوب اور مغرب میں موجود تین بڑے شہروں میں لڑائی جاری ہے۔ طالبان جنگجو ان شہروں کو سرکاری فورسز سے چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں۔طالبان جنگجو ہرات، لشکر گاہ اور قندھار کے کچھ حصوں میں داخل ہو چکے ہیں۔جب سے یہ اعلان کیا گیا کہ ستمبر تک تمام غیر ملکی فوجی یہاں سے چلے جائیں گے تب سے طالبان نے دیہی علاقوں میں تیزی سے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔لیکن ان اہم شہروں کی قسمت انسانی بحران کے خدشات کے حوالے سے اہم ہو سکتی ہے۔ اور یہ بھی کہ حکومتی افواج کتنی دیر تک صورتحال پر قابو پا سکیں گی۔لشکر گاہ سے اطلاعات موصول ہوئیں کہ سنیچر کو عسکریت پسند گورنر ہاو¿س سے چند سو میٹر کی دوری پر تھے لیکن انھیں رات تک واپس دھکیل دیا گیا۔یہ گذشتہ چند روز میں ان کی حملے کی دوسری کوشش تھی۔افغان فورسز کے کمانڈر نے کہا کہ انھوں نے جمعے کو عسکریت پسندوں کو کافی حد تک جانی نقصان پہنچایا ہے۔

طالبان کی توجہ اب افغانستان کے شہروں پر ہے۔ صورتحال غیر مستحکم ہے لیکن صوبہ ہلمند کا مرکز لشکر گاہ جہاں بہت سے امریکی اور برطانوی فوجی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں میں اس وقت سب سے زیادہ مخدوش حالات ہیں۔ طالبان کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے شہر کے مرکز سے اپنے جنگجوؤں کی ویڈیوز اپ لوڈ کی ہیں۔افغان سپیشل فورسز کو انھیں پسپا کرنے کے لیے مدد کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ عسکریت پسندوں نے وہاں بسنے والے عام خاندانوں کے گھروں میں پوزیشنیں سنبھال لی ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں وہاں سے نکالنا مشکل ہو جائے گا۔ آگے مزید طویل اور خونی لڑائی دکھائی دیتی ہے۔قندھار میں پارلیمینٹ کے ایک رکن نے بی بی سی کو بتایا کہ شہر کا طالبان کے ہاتھوں میں چلے جانے کا شدید خطرہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہزاروں لوگ پہلے ہی بے گھر ہو چکے ہیں اور ایک انسانی آفت آنے والی ہے۔گل احمد کمین نے کہا کہ صورتحال ہر گزرتے گھٹنے کے بعد بدتر ہوتی جا رہی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ شہر کے اندر جاری لڑائی گذشتہ 20 سالوں میں ہونے والی شدید ترین لڑائی ہے۔انھوں نے بتایا کہ طالبان اب قندھار کو ایک اہم مرکز کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ایک ایسا شہر جسے وہ اپنا عارضی دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔گل کمین کہتے ہیں کہ اگر یہ شہر ان کے قبضے میں چلا گیا تو اس سے خطے میں موجود پانچ سے چھ صوبے بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے۔اگر یہ گر گیا تو اس علاقے کے پانچ یا چھ دوسرے صوبے بھی قبضے سے نکل جائیں گے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان جنگجو شہر کے مختلف اطراف میں موجود تھے اور وہاں بہت زیادہ شہری آبادی رہتی ہے۔

گل کمین کہتے ہیں کہ اگر طالبان شہر کے اندر چلے گئے تو پھر وہاں حکومتی فوج کے لیے بھاری ہتھیاروں کا استعمال ممکن نہیں ہو گا۔افغانستان کے مغربی شہر ہرات پر کنٹرول کے لیے طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان سخت لڑائی جاری ہے۔ طالبان کے خلاف لڑنے والوں میں صرف افغان فوجی نہیں بلکہ دیگر طالبان مخالف جنگجو بھی ہیں۔ان جنگجوو¿ں کی قیادت اسماعیل خان نامی ایک بااثر مقامی کمانڈر کر رہے ہیں جنھیں مقامی طور پر امیر اسماعیل خان بھی کہا جاتا ہے۔ہرات شہر افغانستان کے اہم صوبے ہرات کا دارالحکومت ہے جس کی ایک طویل سرحد ایران کے ساتھ لگتی ہے۔ یہ تاریخی اور ثقافتی ورثے کے حوالے سے بھی نمایاں صوبہ ہے۔ملک کے مغربی حصے میں واقع یہ صوبہ افغانستان کا ایک اہم تجارتی مرکز بھی ہے چنانچہ اس پر قبضہ ہونا طاقت کی ایک اہم علامت سمجھا جاتا ہے۔جمعہ کو ہرات شہر میں اقوامِ متحدہ کے ایک کمپاو¿نڈ پر حملے میں ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت کے بعد سنیچر کو افغان فورسز اور طالبان جنگجوو¿ں کے درمیان ایک بار پھر لڑائی نے شدت اختیار کی ہے۔یاد رہے کہ امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج کے انخلا کے قریب آنے کے ساتھ ہی مئی کے مہینے سے ملک بھر میں تشدد کی لہر زور پکڑ گئی اور اب جیسے جیسے انخلا مکمل ہونے لگا ہے، طالبان ایک کے بعد ایک ضلعوں کا قبضہ حاصل کرتے جا رہے ہیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اب تک طالبان نے ایران اور ترکمانستان کے ساتھ واقع دو سرحدی چوکیوں کا بھی قبضہ حاصل کر لیا ہے۔

اے ایف پی نے مقامی رہائشیوں اور حکام کے حوالے سے بتایا کہ ہرات کے نواحی علاقوں میں لڑائی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور سینکڑوں لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر شہر کے مرکز کا رخ کر رہے ہیں۔ہرات کے گورنر عبدالصبور قانی کا کہنا ہے کہ زیادہ لڑائی انجیل اور گزارا کے علاقوں میں ہو رہی ہے جہاں ہوائی اڈہ بھی واقع ہے۔ا±نھوں نے کہا: ‘اس وقت لڑائی جنوب اور جنوب مشرق میں ہو رہی ہے۔ ہم احتیاط کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں تاکہ شہریوں کی جانیں محفوظ رہیں۔’عمر رسیدہ جنگجو کمانڈر اسماعیل خان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ 1980 کی دہائی میں افغانستان پر سوویت حملے کے دوران روسی افواج کے خلاف لڑائی میں شریک رہے تاہم وہ طالبان کے بھی مخالف ہیں۔ 1992 سے لے کر 1997 تک وہ صوبہ ہرات کے گورنر بھی رہے جس کے بعد وہ 1996 سے 2001 تک افغانستان میں قائم رہنے والی طالبان حکومت کی قید میں چلے گئے۔بی بی سی پشتو کے سید انور کے مطابق طالبان حکومت کے دوران وہ کچھ عرصے کے لیے قندھار میں قید بھی رہے جہاں سے وہ بعد میں فرار ہو گئے تھے۔اس کے بعد وہ 2001 سے 2004 تک دوبارہ ہرات کے گورنر رہے اور بعد میں 2005 سے 2013 تک حامد کرزئی کی حکومت میں وزیرِ توانائی و پانی بھی رہے۔سیاسی طور پر وہ برہان الدین ربانی کی جمعیتِ اسلامی سے وابستہ رہے ہیں جو طالبان کا مخالف سیاسی دھڑا ہے۔سید انور کے مطابق اسماعیل خان بعد میں بھی سیاسی طور پر بااثر رہے ہیں یہاں تک کہ موجودہ افغان صدر اشرف غنی بھی ا±ن سے مشاورت کرتے رہے ہیں اور ا±نھوں نے حال ہی میں ہرات کے دورے میں اسماعیل خان سے ملاقات بھی کی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *