Taliban fighters beat women protesters for demanding their rightsتصویر سوشل میڈیا

کابل: (اے یو ایس ) افغانستان میں تعلیم نسواں کے حق میں آواز بلند کرنے کا سلسلہ کسی طور کم ہونے میں نہیں آرہا ۔وہاں خواتین کے حق کے لیے جدو جہد کرنے والی خواتین ہر قسم کی سختی برداشت کر رہی ہیں لیکن خواتین کے حقوق خاص طور پر درجہ ششم سے دوازدہم تک کی جماعتوں میں تعلیم پانے والی طالبات کے اسکول کھولنے کے مطالبہ پر زور ڈالنے کے لیے مظاہرہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ طالبان حکومت کا اےک سال مکمل ہونے پر ان افغان خواتےن نے گذشتہ روز بھی وزارت تعلےم کے باہر مظاہرہ کےا ۔ لےکن طالبان اہلکاروں نے نہ صرف لاٹھےا ںبرسائےں بلکہ ان کو تتربتر کرنے کے لئے ہوائی فائرنگ بھی کی ۔ مظاہرےن خواتےن اپنے ہاتھوں مےں بےنراٹھائے ہوئے اور جس مےں وہ حکومت سے مطالبہ کررہی تھےں کہ انہےں کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ اور ا ن کے آواز کو نہےں دبانا چاہئے ۔اور وہ وزارت تعلےم کے دفتر کے قرےب پہنچ گئیں۔

طالبان کے اہلکاروں نے ان پرلاٹھےاں برسائےں اور ہوامےں فائرنگ بھی کی۔ تا کہ وہ وہاں سے بھاگ جائےں۔ طالبان خواتین کا مطالبہ ہے کہ انہےںنہ صرف تعلےم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے بلکہ ان کے ملازمت کرنے پر عائد پابندی بھی ہٹائی جائے۔ احتجاج کے دوران کچھ عورتوں نے دکانو ںمےں پناہ لی لےکن طالبان کے سےکورٹی اہلکاروں نے ان دکانو ں میں بھی گھس کر ان کو پر تشدد کیا ۔ مظاہرےن نے کہا کہ 15اگست جس دن طالبان کے افغانستان پر قبضہ کےا وہ ان کے لئے ےوم سےاہ دن ہے۔ اور طالبانی حکومت نے ان پر طرح طرح کی پابندےاں لگائےں ۔ عورتوں کی اےک ترجمان محترمہ منشےا نے کہا کہ طالبان کو ےہ خےال ہے کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر ہماری آواز دبائے گی تو ےہ ان کی غلط فہمی ہے۔ حد تو ےہ ہے کہ جو صحافی اس رےلی کی رپورٹنگ کرنے گئے تھے ان کو بھی پےٹا گےا ۔ پچھلے اےک سال سے صرف عورتوں کے حقوق پامال کرد یے گئے اور اس کے علاوہ لڑکےوں کے اسکول جانے پر بھی پابندی لگا دیگئی ۔خواتین کی جانب سے یہ احتجاج ایسے موقع پر کیا گیا جب افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کا ایک سال مکمل ہو گیا۔ 15 اگست 2021 کو طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد 31 اگست تک امریکہ سمیت تمام غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا مکمل ہوا تھا۔

ریلی کے شرکا کابل میں”ہمیں کام، روٹی اور آزادی چاہیے“کے نعرے لگا تے ہوئے وزارت تعلیم کی جانب مارچ کر رہے تھے ۔ اس دوران طالبان نے حکومت مخالف اس ریلی کو روکنے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ریلی کے شرکا کام کا حق اور سیاسی نمائندگی کے مطالبات کے ساتھ ساتھ”انصاف، انصاف“کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ مظاہرین نے بینرز بھی تھامے ہوئے تھے جن پر 15 اگست یومِ سیاہ ہے درج تھا۔سوشل میڈیا اکاو¿نٹس اور عینی شاہدین کی جانب سے شیئر کردہ ریلی کی فوٹیجز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اکثر خواتین نے اپنے چہرے کو نہیں ڈھانپا ہوا تھا۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کچھ خواتین مظاہرین جنہوں نے قریبی دکانوں میں پناہ لی تھی ان کا پیچھا کیا گیا اور سیکیورٹی فورسز نے ان پر رائفل کے بٹوں سے تشدد کیا۔سوشل میڈیا پر ریلی کی ایک ویڈیو میں شدید فائرنگ سنی جاسکتی ہے جس میں طالبان اہلکار خواتین مظاہرین پر تشدد کر رہے ہیں جب کہ افغان صحافیوں کو بھی ریلی کی کوریج سے پرتشدد طریقے سے روکا جا رہا ہے۔ادھر انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پرامن احتجاج کرنے والی خواتین کو منتشر کرنے کے لیے طالبان کی جانب سے مبینہ طور پر ”طاقت کے بے دریغ” استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

دوسری جانب طالبان حکام نے ان الزامات پر فوری طور پر کوئی ردِعمل نہیں دیا ہے۔خیال رہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد کابل میں طالبان نے تمام افغان شہروں کے حقوق کے تحفظ کے خواتین کے کام اور تعلیم کے حقوق کو ختم کردیا ہے جب کہ سیکنڈری اسکول میں لڑکیوں کی تعلیم پر بھی پابندی لگادی ہے۔نجی شعبے کے لیے کام کرنے والی خواتین ملازمین کو گھر پر رہنے کا کہہ دیا گیا ہے۔ صرف تعلیم، صحت اور دیگر کچھ وزاتوں میں خواتین کو کام کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ عوامی مقامات پر انہیں اپنا چہرہ ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ خواتین پر پابندی عائد ہے کہ وہ کوئی بھی طویل سفر کسی مرد محرم کے بغیر نہیں کر سکتیں۔طالبان اپنی ان پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ افغان ثقافت اور شریعت یا اسلامی قانون کے مطابق ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *