کابل:(اے یو ایس )افغانستان میں اقتدار میں آنے کے لگ بھگ دو ماہ بعد درالحکومت کابل میں طالبان نے پہلی بار عوامی اجتماع کا انعقاد کیا ہے۔خبر ساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق کابل کے نواح میں ایک کھلے میدان میں ہونے والے اجتماع میں صرف مردوں نے شرکت کی۔ بعض مبصرین نے اس جلسے کو طالبان کی اپنے لیے عوامی حمایت ظاہر کرنے کی ایک کوشش قرار دیا۔
اجتماع میں شرکا کے بیٹھنے کے لیے قطاروں میں کرسیاں لگائی گئی تھیں جب کہ طالبان کے مسلح افراد جگہ جگہ تعینات نظر آ رہے تھے۔جلسے کے شرکا اپنے ہاتھوں میں جھنڈے یا کتبے بھی تھامے ہوئے تھے جس پر طالبان کی حمایت میں نعرے درج تھے۔جلسہ گاہ میں جب لوگوں کی آمد شروع ہوئی تو اس وقت اسپیکرز سے طالبان کی کامیابی کے ترانے چلائے گئے۔ ان ترانوں میں غیر ملکی افواج کی شکست کا بھی ذکر کیا جا رہا تھا۔دوسری جانب افغان جرنلسٹس یونین نے اتوار کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق سابقہ صدر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں ذرائع ابلاغ کے کئی اداروں نے یا تو کام بند کر دیا ہے یا پھر انہیں اپنے آپریشنز جاری رکھنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق افغان یونین آف جرنلسٹس نے یہ رپورٹ ایک ایسے موقع پر جاری کی جب جلال آ باد میں ایک صحافی سید معروف سعادات کو تین دیگر افراد کے ہمراہ قتل کر دیا گیا۔وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق ایک کار میں سوار سید معروف سعادات کو ایک رکشے میں موجود مسلح افراد نے نشانہ بنایا۔ فائرنگ سے ان کا بیٹا بھی زخمی ہوا۔ذرائع کے مطابق کار میں ان کے ساتھ موجود دیگر دو افراد طالبان تھے جو کہ فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ان پر حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی بھی گروہ یا افراد نے قبول نہیں کی۔سید معروف سعادات ذرائع ابلاغ کے کئی مقامی اداروں سے وابستہ رہے تھے جب کہ انہوں نے شہری تعمیر و ترقی کی وزارت میں بھی خدمات انجام دی تھیں۔خطوط میں میڈیا اداروں سے کہا گیا تھا کہ طالبان کو ان کے سرکاری نام ’امارت اسلامی افغانستان‘ سے پکارا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ نوجوانوں کو ملک چھوڑنے کی مبینہ حوصلہ افزائی سے باز رہے اور اسلام کے سوا کسی بھی اور مذہب کی مبینہ طور پر ترویج نہ کرے۔
یہ خطوط 25 ستمبر کو ملک کے بڑے میڈیا اداروں کو ارسال کیے گئے تھے۔ ان پر طالبان کے اطلاعات اور ثقافت کے عبوری ڈپٹی وزیر ذبیح اللہ مجاہد کے دستخط تھے۔علاوہ ازیں افغانستان میں طالبان کی حکومت نے بغیر دستاویزات کی گاڑیوں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔وزارتِ دفاع کے جاری کردہ ایک اعلان کے مطابق افغانستان کے سابقہ حکام سے طالبان نے جو گاڑیاں حاصل کی تھیں ان میں سے بعض طالبان کی اماراتِ اسلامی افغانستان کو واپس نہیں لوٹائی گئیں۔بیان کے مطابق بعض افراد ان گاڑیوں کی فروخت کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے بغیر دستاویزات کی گاڑیوں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔