اقوام متحدہ: اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا ہے کہ گزشتہ سال 15 اگست کو طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے اب تک سابق افغان حکومت، اس کی سکیورٹی فورسز اور بین الاقوامی فوجیوں کے ساتھ کام کرنے والے 100 سے زائد سابق فوجی مارے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کو اس حوالے سے معتبر ذرائع سے معلومات ملی ہیں۔
اتوار کو دی ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے موصول ایک رپورٹ کے ،جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمع کرائی گئی، حوالے سے گوٹیریس نے کہا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے سیاسی مشن کو دولت اسلامیہ فی العراق و الشام خراسان(داعش خراسان) سے وابستگی کے شبہ میں کم از کم 50 افراد کے ماورائے عدالت قتل کی معتبر ذرائع سے معلومات موصول ہوئی ہیں۔ داعش خراسان افغانستان میں سرگرم شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ فی العراق و الشام (داعش)ہے۔ گوٹیرس نے کہا کہ طالبان کی یقین دہانیوں کے باوجود اقوام متحدہ کے سیاسی مشن کو سابق حکومت اور اتحادی ارکان کی زندگی کے حق اور دیگر خلاف ورزیوں کو متاثر کرنے والی معلومات موصول ہوئی ہیں۔
گوٹیرس نے کہا کہ تحفظ انسانی حقوق ک کارکن اور میڈیا کے افراد بھی حملہ، دھمکی، ہراساں کرنے، من مانی گرفتاری، بدسلوکی اور قتل جیسے جرائم کا شکار ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سماجی خدمات کے آٹھ کارکنان، جن میں تین طالبان اور تین داعشی شدت پسند شامل ہیں، مارے گئے اور 10 کو طالبان کی طرف سے عارضی گرفتاریوں، مار پیٹ اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔اسی دوران آ داعش کے انتہاپسندوں نے دو صحافیوں کو ہلاک کر دیا۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اقوام متحدہ کے مشن نے عارضی گرفتاریوں، مار پیٹ اور دھمکیوں کے 44 مقدمات درج کیے ہیں، جن میں سے 42 طالبان کے خلاف ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ 20 سال بعد ملک سے امریکی اور ناٹو افواج کے انخلا کے درمیان طالبان نے افغانستان کے بیشتر علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس نے گزشتہ سال 15 اگست کو کابل پر قبضہ کیا تھا۔ اس وقت کے صدر اشرف غنی کسی کو بتائے بغیر اچانک ملک چھوڑ گئے تھے۔