کابل: ایران افغانستان آبی تنازعہ کے حوالے سے تمام معاملے سے واقف ایک ذریعہ کے مطابق طالبان نے کہا کہ وہ پانی کے تنازعہ پر ایران کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہیں اور ا نہوں نے اس علاقے میں ہزاروں فوجی اور سینکڑوں خودکش بمبار بھیج دیے ہیں۔یہ معاملہ ہملند آبی تقسیم پر ایران کے حکمرانوں اور طالبان عہدیداران میں بڑھتی کشیدگی کے کے درمیان آیا ہے۔
دریں اثنا ایران نے طالبان کو انتباہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 1973 کے معاہدے کا احترام کریں بصورت دیگر سنگین نتائج کا سامنا کرنے تیار رہیں۔ ایران کو 22 کیوبک میٹر فی سیکنڈ کے بہاو¿ کی شرح سے سالانہ 820 ملین کیوبک میٹر پانی ملتا ہے۔علاوہ ازیں دونوں ممالک کے درمیان 1973 کے معاہدے کی رو سے اسے عام دنوں اور آبی سالوں کے دوران مزید چار کیوبک میٹر فی سکنڈ خریدنے کا اختیار بھی ہے۔ 1973 میں افغانستان میں سیاسی بغاوت، اس کے ایک سال بعد ملک پر سوویت قبضے اور پھر 1995 میں طالبان کی آمد نے اس معاہدے کو مکمل طور پر نافذ ہونے سے روک دیا۔
دوسری طرف اسلامی جمہوریہ افغانستان کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان اپنے آبی وسائل کا صرف 25 فیصد استعمال کرتا ہے۔ باقی پڑوسی ممالک بشمول ایران اور پاکستان کو جاتا ہے۔
طالبان رہنما اس وقت اپنے پڑوسیوں کے ساتھ الجھا ہوا ہے کیونکہ امریکہ سے 20سالہ جنگ کے بعد عامی درجہ حرارت میں اضافہ کے اثرات مزید شدید ہو گئے ہیں۔ پانی کے ختم ہونے والے وسائل پر ایران کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے یہ خطہ جو پہلے ہی غیر مستحکم تھا مزید غیر مستحکم ہوتا جا رہا ہے۔ دریائے ہلمند کے طاس علاقے میں پانی کی قلت اس آب و ہوا کی تبدیلی کا نتیجہ ہے کیونکہ ملک میں گرمی پڑتی ہے اور بارشوں کی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے بعد بھیانک خشک سالی ہو جاتی ہے ۔