کابل: افغانستان میں قبضے کے بعد اپنی حکومت قائم کرنے والا طالبان اپنے ہر وعدے سے مکرنے لگا ہے۔ طالبان نے خواتین کو مساوی حقوق کے بارے میں یقین دہانی کر ا کے اس سے روگردانی کرتے ہوئے ازبک کو سرکاری زبا کے درجے سے محروم کرکے ایک اور وعدہ خلافی کی۔
واضح ہو کہ طالبان نے ایک مخلوط حکومت بنانے اور اپنی اسلامی امارت میں تمام نسلوں کا احترام کرنے کے وعدے کیے تھے لیکن اب بین الاقوامی سطح ہر ہدف تنقید بننے کے درمیان طالبان نے ازبک کو سرکاری زبان والی فہرست سے قلم زد کر دیا ہے۔
اب قانون کے مطابق افغانستان کا مذہب سنی ہے اور اس کی سرکاری زبانیں پشتو اور داری ہیں۔اس سے قبل افغانستان میں ازبک زبان ان تین زبانوں کی فہرست میں شامل تھی جنہیں سرکاری حیثیت حاصل تھی ازبک زبان شمالی صوبوں کے بہت سے باشندے بولتے ہیں۔ ملک میں ایک بڑی شیعہ برادری ہے ، جس میں بنیادی طور پر ہزارہ شامل ہیں۔
طالبان نے افغانستان کے لیے ایک عبوری قانون جاری کیا جس کی رو سے حکومت کا ایک نیا نظام قائم کیا گیا اور قانون میں پہلے سے موجود تین کی بجائے دو سرکاری زبانوں کو ہی ملک کی تسلیم شدہ قومی زبان قرار دیا گیا۔ دی فرنٹیئر پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ، افغانستان میں اسلامی وکلا کی ایک کونسل اور ایک سپریم کونسل تشکیل دی جائے گی۔ جس میں ہر صوبے کے سیاستدان ، سائنسدان اور پادری شامل ہوں گے ۔
![Taliban remove Uzbek from official language status](https://urdutahzeeb.com/wp-content/uploads/2021/09/talib.jpeg)