کابل:تعلیم نسواں کے شدید مخالف طالبانی حکمرانوں کے اس فیصلے کے بعد کہ درجہ ششم سے دوازدہم اورمزید اعلیٰ تعلیم کے تمام ادارے بشمول یونورسٹیاں اور کالج ہر گز نہیں کھولے جائیں گے ان افغان خواتین کے پاس جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی شدید خواہشمند تھیں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیاتھا کہ وہ وظیفہ پا کر اعلیٰ تعلیم پانے کے لیے بیرون ملک پرواز کر جائیں۔ لیکن امارت اسلامیہ کے رہنماو¿ں کو یہ بھی منظور نہیں تھا اور انہوں نے طالبات کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس ضمن میں بات کرتے ہوئے 20 سالہ افغان طالبہ نتکائی کا،جس کا نام حفظ ما تقدم کے طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے کیونکہ طالبان نے ان خواتین کے خلاف سخت کارروائی کرتی ہے جو ان کی مخالفت کرتی ہیں ، کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے خواتین کے لیے یونیورسٹیاں بند کرنے کے بعد میری واحد امید ایک اسکالرشپ حاصل کرنے پر قائم تھی جس سے مجھے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔
نتکائی کا کہنا ہے کہ باوجود اس کے کہ اس کے اپنے وطن میں یونیورسٹی جانے کا بہت کم امکان تھا، وہ پڑھتی رہی حا۔ پھر اسے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی دوبئی یونیورسٹی میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ دی گئی۔ طالبان کی جانب سے خواتین پر یونیورسٹی جانے پر پابندی کے بعد ایک اماراتی ارب پتی تاجر شیخ خلف احمد الحبتور کی جانب سے افغان خواتین کے لیے وظائف کا اعلان دسمبر 2022 میں کیا گیا تھا۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے اندازے کے مطابق کم و بیش 100 افغان خواتین اسکالرشپ پانے میں کامیاب رہیں۔ بیرون ملک مقیم کچھ افغان طالبات پہلے ہی دبئی جا چکی تھیں۔قبل ازیں دبئی میں قائم ایک فلاحی تنظیم کے سربراہ نے گذشتہ بدھ کو کہا کہ افغانستان کے طالبان حکام نے تقریباً 100 خواتین کو متحدہ عرب امارات جانے سے، جہاں وہ اپنی یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے والے تھے، روک دیا ہے۔
الحبتور گروپ کے بانی چیئرمین خلف احمد الحبتور نے کہا کہ ایکس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں، جسے پہلے ٹویٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، کہا گیا تھا کہ اس نے افغان طالبات کو یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے اسپانسر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اوران طالبات کو دوبئی لے جانے کے لیے انہوں نے جس طیارے کے لیے ادائیگی کی تھی اسے بدھ کی صبح ان طالبات کو لے کر متحدہ عرب امارات پرواز کرجانا تھا لیکن میرے زیر کفالت دوبئی میں پڑھنے کے لیے آنے والی 100طالبات کو عین موقع پر طالبان حکومت نے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ہم نے طیارے کے لیے پہلے ہی ادائیگی کر دی تھی اور ہم نے ان کے لیے دوبئی میں رہائش، تعلیم اور آمد و رفت نیز ان کے تحفظ کا انتظام کر رکھا تھا۔طالبان انتظامیہ اور افغان وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس معاملے پر تبصرے کے لیے رائٹرز کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔