کابل: (اے یو ایس) افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے لئے صدر بائیڈن کی جانب سے مقرر کردہ ڈیڈ لائن 31 اگست میں اب صرف دو روز باقی رہ گئے ہیں۔ ایک جانب جہاں امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی کے بارے میں اہم نوعیت کے فیصلے کر رہا ہے، وہیں طالبان کابل ایئرپورٹ کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ایک روز قبل جمعرات کو کابل ایئرپورٹ کے قریب ہولناک خودکش دھماکوں میں 13 امریکی فوجیوں سمیت ایک سو سے زائد افراد ہلاک اور بڑی تعداد میں زخمی ہوئے تھے۔خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکہ کے محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی سفارت کاروں کے تحفظ اور سیکیورٹی کے پیش نظر یہ فیصلہ کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ آیا 31 اگست کے بعد امریکہ وہاں اپنی سفارتی موجودگی برقرار رکھے گا یا نہیں۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے جمعے کو ایک نیوز بریفنگ میں بتایا کہ اختیارات کی پرامن منتقلی کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ایئرپورٹ ٹریفک کے ماہرین نے یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد ایئرپورٹ پر موجود سہولیات معمول کے کمرشل آپریشن کا بوجھ اٹھا سکیں گی یا نہیں۔ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ سوچنا درست نہیں ہو گا کہ یکم ستمبر کو کابل ائیرپورٹ کی سرگرمیاں نارمل ہوں گی۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان بھی یہ چاہتے ہیں کہ 31 اگست کے بعد ایئرپورٹ پر کام معمول کے مطابق ہو اور انہوں نے اس سلسلے میں ہم سے بات بھی کی ہے۔پینٹاگان نے کہا ہے کہ بہت سے ملک 31 اگست کے بعد کابل ایئرپورٹ پر کام کو معمول کے مطابق جاری رکھنے کے لیے طالبان کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہیں۔ترجمان نے بتایا کہ امریکہ افغانستان میں اپنی سفارتی موجودگی کے سلسلے میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مسلسل گفت و شنید کر رہا ہے۔محکمہ خارجہ نے بتایا کہ امریکہ افغانستان کے عوام کے لیے انسانی ہمدردی سے متعلق اپنی ذمہ داریاں بدستور نبھاتا رہے گا اور اس کے لیے فنڈز افغانستان کی مرکزی حکومت کے توسط سے نہیں دیے جائیں گے بلکہ ان کا استعمال براہ راست امریکہ کے ہاتھ میں ہو گا۔
محکمہ خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ طالبان نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کی سفارتی موجودگی برقرار رہے۔دوسری جانب، طالبان کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ امریکی جیسے ہی ہمیں یہ بتائیں گے کہ وہ جا رہے ہیں تو ہم اسی وقت ایئرپورٹ کے انتظامات سنبھال لیں گے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ کام اختتام ہفتہ میں ہو جائے گا۔طالبان عہدے دار کا کہنا ہے کہ ہماری ایک ٹیم ایئرپورٹ کے انتظامات سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔ یہ محض کچھ ہی وقت کی بات ہے۔طالبان کے ایک اور عہدے دار نے بتایا ہے کہ وہ ایئرپورٹ کا زیادہ تر کنٹرول پہلے ہی اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں، سوائے اس تھوڑے سے حصے کے، جو اس وقت امریکی فوجیوں کے پاس ہے۔دوسری جانب، پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے وضاحت کی ہے کہ کابل ایئرپورٹ کے فوجی حصے اور اس کے داخلی دروازوں کا کنٹرول اب بھی مکمل طور پر امریکی فورسز کے پاس ہے۔بہت سے یورپی ملکوں نے کہا ہے کہ انہوں نے کابل سے اپنے انخلا کا کام مکمل کر لیا ہے جب کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ پیر سے اپنے آخری فوجی دستے اور فوجی سامان واپس بھیجنا شروع کر دے گا۔