سہیل انجم
اس وقت پوری دنیا میں اگر کوئی موضوع زیر بحث ہے تو وہ بلا شبہ افغانستان ہے۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پوری دنیا کی نظریں افغانستان پر لگی ہوئی ہیں۔ دنیا دو دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک دھڑے کو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ طالبان کی آمد کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ خواتین کی ملازمت پر پابندی لگا دی جائے گی۔ لڑکیوں کی تعلیم ممنوع کر دی جائے گی۔ عورتیں اپنے حقوق سے محروم ہو جائیں گی۔ افغانستان میں اقلیتوں پر مظالم کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور ایک بار پھر وہی تاریک دور لوٹ آئے گا جو 1996 سے 2001 تک تھا۔ لیکن دوسرے دھڑے کو یہ امید ہے کہ اس با رطالبان اپنی پرانی پالیسی پر عمل نہیں کریں گے۔ انھوں نے ان بیس برسوں میں اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے اور اب وہ پرانی غلطیاں نہیں دوہرائیں گے۔ طالبان رہنماوں کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس بار دنیا سے کٹ کر رہنا نہیں چاہیں گے۔ یاد رہے کہ ان کی سابقہ حکومت کو صرف تین ممالک پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ہی تسلیم کیا تھا۔ باقی پوری دنیا نے اس حکومت کا بائیکاٹ کیا تھا۔ لیکن اس بار ایسا لگتا ہے کہ طالبان دنیا کے ممالک کے دوش بدوش چلنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو تمام ممالک تسلیم کریں۔ انھوں نے دنیا کے ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ افغانستان میں اپنا سفارت خانہ بند نہ کریں۔ انھوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ خواتین اسلامی شریعت میں رہ کر ملازمت کر سکتی ہیں۔ لڑکیاں حجاب میں تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ انھوں نے اقلیتوں کو بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔
پندرہ اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ابھی تک حکومت قائم نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ طالبان بھی اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ اگر اس حکومت میں تمام گروپوں کو شامل نہیں کیا گیاتو اس کا چلنا مشکل ہوگا۔ لہٰذا اس وقت سے لے کر اب تک مسلسل صلاح و مشورے کا دور چل رہا ہے اور تمام قبائلی نمائندوں اور جنگجو سرداروں کے ساتھ میٹنگس چل رہی ہیں تاکہ اتفاق رائے سے حکومت سازی کا عمل مکمل کیا جائے۔ اس کے علاوہ طالبان یہ بھی دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم بدل گئے ہیں۔ وہ جس طرح غیر ملکی شہریوں کو کابل سے نکلنے میں مدد دے رہے ہیں وہ اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ہندوستان اور افغانستان میں تاریخی رشتے رہے ہیں۔ دونوں دوست ملک رہے ہیں۔ سابق صدر حامد کرزئی ہوں یا اشرف غنی یا پھر عبد اللہ عبداللہ۔ سب ہندوستان کو اپنا وطن ثانی سمجھتے ہیں۔ حامد کرزئی کی تعلیم شملہ میں ہوئی ہے۔ عبد اللہ عبداللہ کا نصف خاندان کچھ دنوں قبل تک ہندوستان میں رہ رہا تھا۔ ہندوستان نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ گزشتہ چھ برسوں میں اس نے وہاں تین ارب ڈالر سے زائد پیسہ لگایا ہے۔ اس نے کابل میں پارلیمنٹ ہاوس کی تعمیر کی ہے جسے جمہوریت کا مرکز کہا جا رہا ہے۔ ا س نے اسپتال، سڑکیں، پل، ڈیم، تعلیمی ادارے اور بہت کچھ بنایا ہے۔ زارانج دلآرام ہائی وے بنایا ہے جو کہ دو سو کلومیٹر سے بھی طویل ہے۔
ہندوستان نے ہمیشہ ایک خوشحال، جمہوری اور مستحکم افغانستان کا خواب دیکھا ہے۔ اس نے ہمیشہ اس بات کی وکالت کی ہے کہ وہاں جو بھی حکومت بنے وہ عوام کی منتخبہ حکومت ہو۔ کسی دوسرے ملک کو وہاں کے معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔ افغانستان میں ڈیڑھ ہزار سے زائد ہندوستانی رہ رہے ہیں۔ خود ہندوستان میں سیکڑوں افغان پناہ لیے ہوئے ہیں۔ وہاں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر ہندوستان نے افغانستان کی تعمیر نو میں بڑھ چھ کر حصہ لیا ہے۔ لیکن اب جبکہ اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا ہے اور طالبان ایک طرح سے برسراقتدار آگئے ہیں تو ہندوستان نے پھونک پھونک کر قدم بڑھانے کو ترجیح دی ہے۔ خیال رہے کہ ہندوستان نے طالبان کی سابقہ حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس نے وہاں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا۔ لیکن جب 2001 میں حامد کرزئی کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے اپنا سفارت خانہ پھر سے کھول دیا۔ اب جبکہ حالات یکسر بدل گئے ہیں تو ہندوستان نے اگر چہ اپنے سفیر اور سفارتی عملے کو واپس بلا لیا ہے لیکن ذرائع کے مطابق اس نے اپنا سفارت خانہ بند نہیں کیا ہے۔ مقامی عملہ کام کر رہا ہے او رجو لوگ ہندوستان آنا چاہتے ہیں وہ وہاں اپنی درخواستیں داخل کر رہے ہیں۔
ویسے ابھی تک طالبان نے ہندوستان کو مثبت اشارے ہی دیے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان نے ان کے تعلق سے ابھی تک (کابل پر قبضے کے بعد) کوئی ایسی بات نہیں کہی ہے یا کوئی ایسا بیان نہیں دیا جو طالبان کے بارے میں منفی سوچ کا غماز ہو۔ بلکہ ہندوستان کے خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرنگلا نے ایک بیان میں امید کی کرن کا حوالہ دیا ہے۔
متضاد خبروں کے درمیان طالبان نے ہندوستان کے سفیر اور ان کے سفارتی عملے کو سفارت خانہ کی عمارت سے نکلنے میں جو مدد دی اور جس طرح اس قافلے کے ساتھ چل کر اسے ایئرپورٹ تک پہنچایا اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ طالبان ہندوستان کے ساتھ اچھے روابط رکھنا چاہتے ہیں۔ بلکہ طالبان کے رہنماوں نے ہندوستان کو یہ پیغام بھی دیا تھا کہ وہ اپنے سفارتی عملے کو واپس نہ بلائے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندوستان افغانستان میں جو ترقیاتی منصوبے چلا رہا ہے وہ جاری رہنے چاہئیں اور طالبان چاہیں گے کہ ہندوستان ان کو مکمل کرے کیونکہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان بہت محتاط انداز میں قدم آگے بڑھا رہا ہے۔ ابھی تک اس نے نئی حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کسی موقف کا اظہار نہیں کیا ہے۔ ابھی اس کی توجہ وہاں سے اپنے شہریوں کو نکالنے پر ہے۔ اب تک کئی سو شہری واپس آچکے ہیں اور طالبان نے کسی ایک بھی شخص کے ہندوستان آنے کی مخالفت نہیں کی ہے۔
ہندوستان نے نئی حکومت کے سلسلے میں دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ وہ یہ بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ مغربی اور یوروپی ممالک طالبان کی یا جو بھی نئی حکومت قائم ہوتی ہے اس کے بارے میں کیا پالیسی اپناتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کواڈ گروپ کے ممالک کی رائے بھی دیکھنا چاہے گا۔ کواڈ گروپ میں ہندوستان کے علاوہ امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ ویسے بعض ممالک نے افغانستان کی نئی حکومت کے سلسلے میں نرم روی کا مظاہرہ کیا ہے اور خاص طور پر پاکستان، روس، ترکی اور ایران نے اسے تسلیم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ ہندوستان کے لیے نئی حکومت پر پاکستان کے اثرات سے تشویش لاحق ہے۔ حالانکہ پاکستان طالبان پر اپنے اثرات سے انکار کرتا ہے۔ اگر وہاں کی حکومت پر پاکستان کا اثر رہتا ہے تو یقیناً ہندوستان کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ حالانکہ ابھی تک طالبان نے جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی حکومت میں کسی دوسرے ملک کی مداخلت کو پسند نہیں کریں گے اور نہ ہی اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دیں گے۔
طالبان اور پاکستان کے باہمی روابط کے حوالے سے ہندوستان کو کشمیر کے بارے میں تشویش ہے۔ بعض
مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان کی حکومت بننے کے بعد کشمیر میں دہشت گردی بڑھ سکتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ اس اندیشے کو خارج کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان کا کہنا ہے کہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کا باہمی معاملہ ہے۔ ان دونوں کو اس تنازعے کو حل کرنا چاہیے۔ انھوں نے کشمیر میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہ کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ بہرحال ابھی حالات بہت مخدوش ہیں۔ ابھی کچھ بھی کہنا بہت مشکل ہے۔ جب تک نئی حکومت نہیں بن جاتی اس کے بارے میں کوئی رائے دینا آسان نہیں ہوگا۔ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔ افغانستان سے اس کے تاریخی دوستانہ روابط رہے ہیں۔ اس کی جانب متعدد ممالک دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا اسے بہت محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے اور وہ اسی پالیسی پر گامزن ہے۔