Terror Revelations from Pakistanتصویر سوشل میڈیا

وزیر برائے امور سائنس و تکنالوجی فواد چودھری نے29اکتوبر کو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عمران حکومت کی ستائش کرتے ہوئے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ فروری2019کو جموں و کشمیر میں پلوامہ حملہ جس میں ہندوستان کے نیم فوجی دستوں کے 40اہلکار ہلاک ہوئے تھے، عمران حکومت نے کرایا تھا۔انہوں نے کہا تھا ”پلوامہ میں جو ہماری کامیابی ہے وہ عمران خان کی قیادت میں اس قوم کی قربانی ہے ، اس کے حصہ دار آپ بھی سب ہیں، اس کے حصہ دار ہم بھی سب ہیں۔ پلوامہ حملہ میں پاکستان کا ہاتھ ہونے کے اعتراف سے ایک ہنگامہ مچ گیا اور چودھری نے یہ کہہ کر اپنے دعوے سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی کہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔انہوں نے اصرار کیا کہ جب وہ پلوامہ حملہ کا ذکر کر رہے تھے تو دراصل وہ 26فروری2019کو ہندوستانی فضائیہ کے بالاکوٹ فضائی حملوں کے بعد پاکستان کی فوری فورجی کارروائی کا حوالہ دے رہے تھے۔لیکن اس وقت تک جو نقصان پہنچنا تھا پہچن گیا اور اپنا بیان واپس لینا بے وزن ہو گیا تھا۔چودھری کے اعتراف نے ہندوستان کے اس موقف کی تصدیق کر دی کہ پلوامہ حملہ میں پاکستان براہ راست ملوث تھا۔ قومی تحقیقاتی ادارے (این آئی اے) کی جانب سے اگست2020کو داخل کی گئی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پلوامہ حملہ پاکستان مقیم دہشت گرد گروپ جیش محمد کے ذریعہ رچی گئی ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔اصل ملزم محمد عمر فاروق نام کا ایک پاکستانی شہری تھا جسے افغانستان میں دھماکہ خیز مواد تیار کرنے اور اس کے استعمال کی تربیت دی گئی تھی۔این آئی اے نے اس کا بھی انکشاف کیا تھا کہ حملہ میں استعمال کیا گیا آر ڈی ایکس پاکستان سے لایا گیا تھا۔فواد چودھری کا سیاسی سفر بڑا چکاچوند ، ہرا بھرا اور غیر یقینی رہا ہے اور وہ اپنی امیدیں لے کر دل بدلی کرتے رہے۔ صداق پیشے سے وکیل ہیں اور پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) میں شمولیت سے پہلے انہوں نے صحافت میں طبع آزمائی کی۔مارچ2012میں انہوں نے اے پی ایم ایل چھوڑ دی اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں شمولیت اختیار کر لی۔

انہوں نے اپریل2012اور مارچ 2013کے دوران دو وزراءاعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی حکومتوں میں وزیر کی خدمات انجام دیں۔ انہوںنے پھر پارٹیاں بدلیں اور 2013میں پاکستان مسلم لیگ قائد (پی ایم ایل کیو) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا لیکن ہار گئے۔ جون2016میں وہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) میںشامل ہو گئے اور2018کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہو گئے۔انہیں اگست2018میں وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مقرر کیا گیا لیکن اپریل2019میں کابینی ردو بدل میں انہیں نسبتاً غیر اہم (پاکستانی معیار سے ) قلمدان یعنی وزارت برائے امور سائنس و تکنالوجی سونپ دی گئی۔چودھری کا بیان پاکستان کو دوہرا نقصان پہنچا رہا ہے۔انہوں نے نہ صرف دہشت گردی میں پاکستان کے کردار کی تصدیق کر دی بلکہکشمیر کو ہندوستان کا حصہ بھی تسلیم کر لیا۔ان کی یہ لن ترانی کہ ” ہم نے ہندوستان کو گھس کے مارا“ بذات خود اس امر کا اعتراف ہے کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے۔اس باین سے پاکستان کے اس دیرینہ موقف کی چولیں ہل گئیں کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔

چودھری اصل میں پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) رہنما اور سابق قومی اسمبلی اسپیکر سردار ایاز صادق کا28اکتوبر کو قومی اسمبلی میں دیے گئے اس بیان کا جواب دے رہے تھے جس میں انہوں نے فروری2019کی اس میٹنگ کا ذکر کیا تھا جب عمران حکومت نے ہندوستانی فضائیہ کے ونگ کمانڈر ابھینندن وردھمان کی رہائی کا فیصلہ کیا تھا۔ایاز صادق نے پارلیمنٹ میں دعویٰ کیا مجھے یاد ہے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اس میٹنگ میں موجود تھے اس میٹنگ میں عمران خان نے آنے سے انکار کر دیا تھا۔ قریشی کے پیر کانپ رہے تھے، پیشانی پر پسینہ تھا۔ ہم سے قریشی نے کہا خدا کے واسطے اب اس کو(ابھینندن) واپس جانے دیں، کیونکہ رات کے 9 بجے ہندوستان پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔اور پاکستان حکومت میں حکومت ہند کا ایسا خوف سمایا ہوا تھا کہ اس نے ہندوستان کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے اور ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر فوراً ابھینندن وردھمان کو رہا کر دیا۔ایاز نے مزید کہا کہ حملہ یقینی نہیں تھا وہ تو بس ابھینندن کو واپس بھیجنے پر مصر تھے۔صادق کے کنے کا مقصد یہ تھا کہ پی ٹی آئی حکومت نے ہندوستانی حملے کے خوف کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور ہندوستانی پائلٹ کو رہا کر دیا۔وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے30اکتوبر کو اشارہ دیا تھا ونگ کمانڈر ابھینندن کو دباؤ میں آکر رہا کرنے کا حکومت پر الزام لگانے کے لیے ایاز صادق کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔

انہوں نے ٹوئیٹر کے توسط سے کہا کہ ایاز نے جو کچھ کہا ہے وہ ناقابل معافی ہے ۔اب قانون اپنا کام کرے گا۔ فراز نے زور دے کر کہا کہ ملک کو کمزور کرنا ایک ناقابل معافی جرم ہے اور وعدہ کیا کہ صادق اور ان کے رفقاءکو اس کی سزا دلوائی جائے گی۔ دلچسپ بات یہ ے کہ صادق کے خلاف لاہور کے سول لائنز تھانے میں کیس درج کیا گیا ہے۔ فرقان نام کے شخص کی جانب سے درج کرائی گئی رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ صادق غدار ہے کیونکہ اس نے پاکستانی فوج کے خلاف جھوٹا پروپگنڈہ کرنے کی کوشش کی۔ اس نے اپنی شکایت میں کہا کہ اس کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے وہ ایک محب وطن ہے۔صادق کے بیان پر اس کا نام لیے بغیر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹرجنرل میجر جنرل بابر افتخار نے 29اکتوبر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ابھینندن کی رہائی کے حوالے سے دیا گیا بیان تاریخ مسخ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ کل(بدھ) ایک بیان دیا گیا تھا جو قومی سلامتی سے وابستہ معاملات کی تاریخ کو مسخ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ونگ کمانڈر ابھینندن کی رہائی کو ایک ذمہ دار ملک کے دانشمندانہ اور بالغ النظر اقدام کے بجائے کچھ اور بتانا نہایت مایوس کن اور گمراہ کن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ 29فروری کو فضائی لڑائی میں ہندوستان پر پاکستان کی واضح جیت کے بارے یں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔

ہندوستان میں دہشت گردی پھیلانے میں پاکستان کے رول کی چودھری کے ذریعہ تصدیق اور ایاز صادق کا پاکستان پر ہندوستانی حملہ کا خوف طاری ہونے کے دعوے کے ساتھ ساتھ ایک تیسرا بیان جمیعت علمائے اسلام کے سنیٹر عطاؤ ارحمٰن نے سینیت میں دیا جس میں انہوں نے اندرون ملک دہشت گردی میں پاکستانی فوج کے رول کی تصدیق کر دی۔اس ضمن میں انہوں نے 27اکتوبر کو زبیریہ مدرسہ کے اس بم دھماکے کا حوالہ دیا جس میں 8طلبا ہلاک اور 100سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ ا نہوں نے اپنی تقریر میں براہ راست فوجی جنرلوں کو مورد الزام ٹہرایا اور کہا کہ انہوں نے حزب اختلاف کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی نومبر میں ہونے والی ریلی روکنے کے لیے یہ دھماکہ کرایا ہے۔مولانا کے بیان کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس حملہ میں جو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا وہ فوجی معیار کا تھا۔ان کے بیان کو نہ تو سینیٹ چیرمین نے روکا اور نہ ہی ریکارڈ سے اسے حذف کیا گیا اور اب یہ الزامات پارلیمانی ریکارڈ کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ فوج سیدھے طور پر لگائے گئے الزام پر کیا ردعمل ظاہر کرتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *