واشنگٹن:(اے یو ایس) امریکی ریاست ٹیکساس کی یہودی عبادت گاہ میں ایک مسلح شخص کے ہاتھوں یرغمال بننے والے ربی کا کہنا ہے کہ حملے کے دوران انہوں نے حملہ آ ور پر کرسی پھینکی اور دو ساتھیوں سمیت فرار ہو گئے۔انہوں نے اپنے اور دیگر یرغمالیوں کے محفوظ رہنے کی وجہ ماضی میں حاصل کی جانے والی سیکیورٹی ٹریننگ کو قرار دیا۔ربی چارلی سائٹرون واکر نے امریکی نشریاتی ادارے ‘سی بی ایس مارننگ کو بتایا کہ انہوں نے ہفتے کو حملہ آور کو عبادت گاہ میں داخل ہونے کی اجازت اس لیے دی کیونکہ انہیں لگا کہ اسے پناہ کی ضرورت ہے۔
یرغمال بننے والے ایک اور شخص جیفری آر کوہن نے پیر کو ایک فیس بک پوسٹ میں اس واقعے کے بارے میں لکھا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگ فرار ہوئے، ہمیں نہ ہی چھوڑا گیا نہ ہی کسی نے آزاد کرایا۔کوہن کے مطابق ان چاروں افراد نے مسلح شخص کو مسلسل باتوں میں لگائے رکھا۔ وہ مسلح شخص سے بات کرتے رہے اور وہ انہیں تبلیغ کرتا رہا۔ان کے بقول ایک وقت میں حالات اس قدر خراب ہو گئے تھے کہ مسلح شخص نے انہیں ان کے گھٹنوں پر بیٹھنے کا کہا اور جب انہوں نے دیکھا کہ مسلح شخص ان کے پیچھے آ کر کرسی پر بیٹھا تو انہوں نے فوراً کہا نہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ساتھیوں سے کہا بھاگو۔
حکام کے مطابق مسلح شخص 44 برس کا برطانوی شہری ملک فیصل اکرم تھا۔ وہ ہفتے کو اس وقت مارا گیا جب باقی ماندہ تینوں یرغمالی رات نو بجے کے قریب اس کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ پہلا یرغمالی پانچ بجے کے قریب چھوڑ دیا گیا تھا۔ہفتے کو امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے ایک بیان میں کہا کہ اس واقعے کا تعلق دہشت گردی سے ہے جس میں یہودی کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا اور ادارے کی جوائنٹ ٹیررازم ٹیم اس کی تحقیقات کر رہی ہے۔
فیصل اکرم کو یہودی عبات گاہ سے نشر ہونے والے فیس بک لائیو کے دوران پاکستانی نیورو سائنس دان عافیہ صدیقی کو چھوڑںے کا مطالبہ کرتے ہوئے سنا گیا تھا۔پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت نے افغانستان میں امریکی فوجیوں اور ایف بی آئی اہل کاروں پر قاتلانہ حملے سمیت سات الزامات کے تحت 86 برس قید کی سزا سنائی تھی۔
