محمد ناصر اقبال خان
جس طرح ایک زندہ انسان کیلئے روح کی اہمیت ہے اس طرح ریاست کیلئے اس کے فلسفہ سیاست یعنی نظریہ بھی روح کے زمرے میں آئے گا ۔پاکستان جیسی نظریاتی ریاست کی تعمیروترقی کادارومدار” جلسہ “نہیں “سیاسی فلسفہ “پر ہے۔ لیکن وطن عزیز کے نوسرباز اورشعبدہ بازقسم کے سیاستدان اب مادروطن کو سیاسی فلسفہ سے محروم کرنے کیلئے متحداورمستعدہوگئے ہیں ۔گیارہ اپوزیشن پارٹیوں کے ناکام جلسہ عام کے بعد وزیراعظم عمران خان کاان سے بڑاجلسہ کرنے کا دعویٰ ایک بھونڈامذاق ہے،دانائی کے معاملے میں عمران خان اورنوازشریف میںکوئی فرق نہیں۔ماضی میںنوازشریف کی تنقید سے عمران خان کوسیاسی شہرت ملی اوراب عمران خان کے طنز و تشنیع کے تیروں نے نوازشریف کے سیاسی جسم میں پیوست ہو کر اسے بے جان کرنے کے بجائے اس کی دم توڑتی سیاست میں ہی نئی روح پھونک دی ۔کپتان کی نااہل تبدیلی سرکار نے مینار پاکستان کے سبزہ زارمیں اپوزیشن کاجلسہ کامیاب بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اس کی ناکامی کاکریڈٹ مریم نوازکوجاتا ہے۔
پرویزی آمریت جس مسلم لیگ (ن)کودیوار سے نہ لگاسکی اسے مریم نواز نے13دسمبر کو راوی بردکردیاکیونکہ ریاست ہویاسیاست اس کی بقاءاوربہبود کیلئے” جلسہ” نہیں” فلسفہ” آکسیجن کاکام کرتا ہے ۔حکمران جماعت کی طرح اس کیخلاف سرگرم اپوزیشن پارٹیاں بھی نظریات سے عاری ہیں ۔متحدہ اپوزیشن نے 13دسمبر2020ءکوجہاں جلسہ یعنی کروڑوں روپے جھونک کربھی چندہزار سیاسی مزدورںکواکٹھا کیا وہاں23مارچ1940ءکوقراردادپاکستان پاس کی گئی تھی لیکن متحدہ اپوزیشن کے کسی رہنماءکی تقریرمیں کوئی پیغام تھا اورنہ پاکستان کی بیمار معیشت کی بحالی اورہم وطنوں کی خوشحالی کیلئے کوئی تدبیر تھی ۔گیارہ پارٹیوں کے رہنماءتوبظاہر متحد ہیں کیونکہ اس مفاہمت کے پیچھے منافقت کارفرماہے لیکن ان کے کارکنان آج بھی ایک دوسرے کوبرداشت کرنے اورساتھ چلنے کیلئے تیار نہیں ورنہ اپوزیشن کے ہراجتماع میں بدنظمی کامظاہرہ نہ ہوتا۔ پاکستانیوں کی ریاستی نظام بالخصوص پولیس کلچر سے بیزاری کوئی رازنہیں اسلئے ہمارے معاشرے میں” تبدیلی “کاچورن بیچنا بہت آسان ہے، تاہم تھانہ کلچر کی بربادی کے پیچھے ہمارا سیاسی کلچربلکہ©” سیاسی کچرا” پوری طرح ننگانظرآتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کا عام آدمی سچائی تک رسائی کیلئے جستجو نہیں کرتا اورشعبدہ بازسیاستدان اسے با آسانی بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ میں وثوق سے کہتاہوں پاکستان کاسیاسی کلچر بدلے بغیر معیشت اورمعاشرت کی حالت زارنہیں بدلی جاسکتی ۔
کپتان کا” دھرنا”درحقیقت دعوﺅں اوروعدوں کا”جھرنا” تھا۔دھرنے کے دوران کپتان نے قوم سے جوبھی وعدہ کیا ان میں سے ابھی تک ایک بھی وفانہیںہوا۔کپتان کی تقاریرمیںپولیس کلچر کی تبدیلی کا تصوربھی شہریوںکوبیحدمتاثر کرتاتھالیکن جوشخص خودکونہیں بدل سکتا اس کے ہاتھوں ملک اورمعاشرے میں کیا خاک تبدیلی آئے گی۔عمران خان بلے بازی کے “میدان”میں بھی منتقم مزاج تھااورآج اقتدار کے اعلیٰ”ایوان “میں بھی اس کی انتقامی روش زوروں پرہے ۔ دھرنا کے دوران عمران خان نے اپنے جذباتی خطابات سے نوجوانوں سمیت عوام کی بڑی تعدادکواپناگرویدہ بنایا ،پاکستانیوں کی مخصوص تعداد نے اسے اپنا نجات دہندہ سمجھ لیا لیکن یہ تو بعد میں معلوم ہوا وہ بھی اپنے عہد کے عام سیاستدانوں کی طرح وزرات عظمیٰ کے پیچھے دوڑرہا تھاکیونکہ اگروہ “نجات دہندہ “ہوتاتو پھرکئی ایک “نادہندہ”اورنیب زدہ آج پی ٹی آئی کاہراول دستہ نہ ہوتے ۔دھرنا برقرار رکھنے کیلئے رات بھر گانوں کے ساتھ ساتھ تبدیلی کے نعروں اوروعدوں کاتڑکا بھی لگایاجاتا رہا۔ سانحہ اے پی سی کے روزعمران خان نے اپنا دھرنا توختم کردیا لیکن وہ اپنے وعدے کنٹینر کی چھت پر چھوڑآیا۔الیکشن2018ءکے ساتھ پاکستان پر کپتان کا “راج” اورسرکاری سطح پربدزبانی کا”رواج” ایک ساتھ شروع ہوا ۔اقتدار کے جوش نے ہوش پرغلبہ پالیا ،کپتان نے جوٹیم بنائی اس کی اہلیت کابھانڈا سودنوں میں پھوٹ جبکہ نیاپاکستان بنانے کی دوڑمیں پراناپاکستان بہت پیچھے چھوٹ گیا۔تحریک “انصاف”کی سرکار بھی محروم طبقات کوان کے حقوق اوربالخصوص انصاف کی فراہمی یقینی بنانے میں ناکام ہوگئی ۔عمران خان نے دھرنا کے دنوں میں باربار پولیس کلچر کی تبدیلی کادعویٰ اوروعدہ کیا لیکن اقتدارمیں آنے کے بعد پولیس کلچر کوتختہ مشق بنالیا ۔کپتان کے فرمان پرپنجاب میں چھ آئی جی تبدیل کرنے کے باوجود پولیس کلچر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ الٹا لاہورپولیس کے متنازعہ کمانڈرکی بدزبانی ،من مانی اوربدانتظامی کے سبب شہرلاہورمیں شہریوں کی شکایات مزید بڑھ گئی ہیں۔عمر شیخ توایک دن ریٹائرڈہوجائے گالیکن لاہورمیں مسلم لیگ (ن) کیخلاف اس کے انتقامی اقدامات کی قیمت پی ٹی آئی کوزندگی بھرچکاناپڑے گی ۔
تخت لاہور کیلئے عثمان بزدار جبکہ سی سی پی اولاہور کی حیثیت سے عمر شیخ بھی کپتان کاحسن انتخاب ہے اورکسی باشعور فردکے نزدیک ان دونوں کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں۔منتقم مزاج اور گالی گلوچ کے عادی عمر شیخ کے ناقص تجربات نے لاہورپولیس کامورال ڈاﺅن کردیا ہے ۔لاہورمیںبیسیوں پروفیشنل اسٹیشن ہاﺅس آفیسرزاورمنجھے ہوئے محرر تبدیل کرکے تھانہ کلچر کی تبدیلی کاتاثردیتے ہوئے کپتان اوربزدارکوگمراہ کیاجارہا ہے۔عمران خان لاہورپولیس کے ایک آفیسر کی طرف سے وٹس ایپ پرموصول ہونیوالی معلومات پراعتماد کرنے کی بجائے اپنادماغ بھی استعمال اورلاہورپولیس پررحم کریں کیونکہ بددلی اوربدحالی سے دوچارپولیس اہلکار زندہ دلان لاہور کی خدمت اورحفاظت نہیں کرسکتے۔پولیس ہینڈآﺅٹ کی روسے جوایس ایچ اوناقص کارکردگی کی بنیادپرتبدیل کئے گئے ان میں سے فاروق اصغر اعوان کوباٹا پور کی مقامی سیاسی وسماجی شخصیات کی بڑی تعداد نے گل پاشی کرتے ہوئے رخصت کیا،سنا ہے فاروق اصغر اعوان کی ٹرانسفر کے بعدباٹا پور میں ایک بارپھر قبضہ مافیا کے ممبرز اورمنشیات فروش متحرک ہورہے ہیں۔اس طرح تھانہ سبزہ زار سے تبدیل ہونیوالے پرجوش ایس ایچ او عمران قمرپڈانہ کیلئے بھی شہریوں کے مثبت جذبات قابل دیدتھے۔جس طرح کوئی شجرسایہ داراپنی زیرزمین شاخوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اس طرح پولیس کی عمارت اپنی بنیادوں یعنی اہلکاروں کے بغیر برقرارنہیں رہ سکتی۔ فاروق اصغراعوان اورعمران قمر پڈانہ کی کارکردگی کو ناقص کہنا باشعورشہریوں سے ہضم نہیں ہوا۔تعجب ہے پولیس رولز2002ءکی دھجیاں بکھیرتے ہوئے تجربہ کارایس ایچ اوزکوتھانوں سے ہٹانااورمتعددناتجربہ کارسب انسپکٹرز کو مہتمم بناناعاقبت نااندیشانہ اقدام ہے۔کس نے کہا بیجا اوردھڑادھڑ”تبادلے”کرنے سے تبدیلی آئے گی ،چہروںکی تبدیلی کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ انسانوں کے انفرادی واجتماعی رویوں اور مزاج کوبدلناحقیقی کامیابی وکامرانی ہے۔
جس دن سے لاہورپولیس کی باگ ڈور عمر شیخ کے ہاتھوں میں آئی ہے اس روز سے فرض شناس آفیسرز سمیت سرفروش اہلکاروں میں اضطراب، مایوسی ،بے چینی اوربے یقینی کی کیفیت ہے۔عمر شیخ نے اپنے تقرر سے اب تک اپنے ٹیم ممبرز کے ساتھ پیشہ ورانہ تعلقات بگاڑنے کے سواکچھ نہیں کیا۔عمران خان نے سودن میں نیاپاکستان جبکہ عمر شیخ نے تین ماہ میں لاہورپولیس کونیویارک پولیس بنانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن دونوں کرداروں کو ان کے نام نہادارادوں میں ناکامی کاسامناکرناپڑا ۔ حالیہ دنوںمیں ایک خاتون پولیس آفیسر اور مردپولیس آفیسرکے درمیان “قرب” اس وقت دونوں کیلئے” کرب” میں بدل گیاجب آئی جی پنجاب انعام غنی نے دوایس پیز کی خدمات وفاق کے سپردکردیں،اس ایک ایکشن سے ہر کسی کی پوزیشن واضح ہوگئی۔داناﺅں نے درست کہا “ہرعروج کوزوال ہے اورزورآور ایک نہ ایک دن زیرہوجاتے ہیں” ۔وہ شخص جوپچھلے دنوں سابقہ آئی جی شعیب دستگیر کی سی پی اوسے رخصتی کاکریڈٹ لے رہا تھااب دن بدن اس کی گرفت کمزورپڑتی چلی جائے گی ۔ ماضی قریب میں لاہور کے دو سابقہ پروفیشنل سی سی پی او کیپٹن (ر)محمدامین وینس اوربی اے ناصر نے اپنی انتھک خدمات اوردوررس اصلاحات کے بل پرجس لاہورپولیس کادامن کافی حدتک بے داغ کردیا تھا،اب وہ پھر سے داغدار ہورہا ہے۔ کیپٹن (ر)محمدامین وینس اوربی اے ناصر کے ادوارمیںپاکستان بھر میں لاہورپولیس کوماڈل کی حیثیت سے کاپی کیاجاتا تھا لیکن حالیہ دنوں میں عمر شیخ سے منسوب کچھ واقعات کے نتیجہ میں لاہورپولیس ایک مذاق بن کررہ گئی ہے۔سی سی پی اولاہورکس حیثیت میں اورکیوں باربار “عمر فارمولہ “کی پھلجھڑی چھوڑرہاہے ۔
ماضی میں توکسی سی سی پی او نے اپنے نام نہاد فارمولے کے تحت لاہور پولیس کوتختہ مشق نہیںبنایاتھا اورنہ آج پنجاب بھرمیں تعینات ڈی آئی جی حضرات اپنے اپنے فارمولے کاڈھول پیٹ رہے ہیں کیونکہ پولیس ایک ڈسپلن فورس ہے جورولز2002ءسے انحراف نہیں کرسکتی۔لاہورکے سوا پنجاب کی کسی ڈویژن میں پولیس فورس بدترین بداعتمادی،بدنظمی اور داخلی انتشارکا شکارنہیں ہے لہٰذاءنام نہادعمرفارمولے کاباب بندکیاجائے۔پنجاب میں بالعموم اورلاہورمیں بالخصوص پولیس آفیسرز اوراہلکاروں کے دھڑادھڑ تبادلے سے تھانہ کلچر تبدیل نہیںہوگا کیونکہ اس کیلئے رویوں کی تبدیلی یعنی تربیت کااہتمام کر ناازبس ضروری ہے۔لاہورپولیس میں سنیارٹی اورقابلیت پرسمجھوتہ تھانہ کلچر کو مزیدبگاڑ دے گا۔جس طرح انتخابی سیاست میں چہروں کی تبدیلی سے ریاستی نظام نہیں بدل سکتا اس طرح پولیس سمیت دوسرے سرکاری محکموں میں بیجاتبادلے بے سود ہیں۔قادروکارسازاورقوی اللہ رب العزت چاہتا تومختلف ادوارمیںاپنی نافرمان ا قوام کوفناکرکے اپنی اطاعت کیلئے دوسری قوم پیداکردیتالیکن معبودبرحق نے ان کی اصلاح اورفلاح کیلئے اپنے پیغمبر وں کوبھیجا لہٰذاءپولیس کلچر میں پائیداراورباوقار تبدیلی کیلئے تبادلوں کی بجائے نیک نیت اورنیک نام آفیسرزکی تقرری ناگزیر ہے جواپنے ماتحت اہلکاروں کی صحتمند تربیت پرفوکس کریں اورانہیں گالیاں دینے کی بجائے دل سے عزت دیں۔
ای میل:kaonain7@gmail.com