ہر شخص کا یہ خیال ہو سکتا ہے کہ چین یا دنیا کے ساتھ تباہ کن جنگ ، جس میں امریکہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرضی کے مطابق چلے ناقابل تصور ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس وقت تک ہر چیز ناقابل تصور ہے جب تک وہ رونما نہ ہوجائے۔ایک سابق برطانوی صحافی و نوبل انعام یافتہ نارمن اینجل نے 1909 میں اپنی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی دی گریٹ الیوژن میں دلیل دی ہے کہ نئے عالمی مالیاتی نظام کے باعث ایک اور عظیم جنگ کبھی نہیں ہوگی۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس کاکیا نتیجہ بر آمد ہوا۔ کسی بھی خوفناک نتیجہ کو روکنے کے لئے ، امریکیوں کو مسئلہ چین کو سخت بیان بازی اور ٹیڑھے مذاکرات کو بالائے طاق رکھ کر سنجیدگی سے طے کرنا چاہئے۔ 1839 سے 1949 کے درمیان صدی کی سب سے بڑی رسوائی کے دوران کم ہوئی علاقائی غلبہ کی بحالی اور قومی فخر کی بازیابی کے لئے چینیوں کے گھریلو اقتصادی نظام نے بہت مدد کی۔ 1980 کی دہائی میں ڈینگ ڑاو¿پنگ کی اصلاحات کی وجہ سے شرح نمو دو عددی ہندسے میں پہنچ گئی۔ مزید برآں 1991 میں سقوط سوویت یونین سے چین کے شمال میں ایک سپر پاور ختم ہو گئی لہذا چینی فوجی طاقت پر بھی نظر رکھنے والا کوئی نہ رہا ۔ ان دو عوامل نے چینی کمیونسٹ پارٹی کو اپنی فوج کی نو تشکیل کرنے کا موقع دے دیا۔
چینی فوجی طاقت میں اضافہ پر کسی کا دھیان نہیں گیا تھا۔ 1993 کے اپنے ایک مضمون میں ایرون فریڈ برگ نے خبردار کیاتھا کہ سقوط سوویت یونین کے بعد کی دنیا میں مشرقی ایشیا کی قسمت کا تعین ہنوز باقی ہے۔ ویکلی سٹینڈرڈ نے 1997 میں چین پر اپنا ایک ایڈیشن نکالا۔ 2000 میں جارج ڈبلیو بش نے کلنٹن انتظامیہ کی چین کے تئیں نرمی کے خلاف مہم چلائی تھی۔ لیکن 2001 میں گیارہ ستمبر کے حملوں نے امریکی توجہ مسلم دنیا کی جانب مرکوز کر دی تھی۔ چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) نے جس کے اصل پالیسی ساز ڈینگ تھے اس خلفشار کا فائدہ اٹھایا اورخاموشی اور تیزی سے ترقی کرنا شروع کر دیا۔ 2002 میں ، چین نے آئندہ دو عشروں کو اسٹریٹجک موقع کے دورانیے کے طور پر ڈکلیر کیا۔
یہ پر سکون عروج 2010میں شی جن پینگ کے بر سر اقتدار آنے کے بعدبڑے زور شور کے ساتھ ہوا ۔حسن اتفاق سے اس وقت عالم اسلام میں امریکہ کی مداخلت بھی کم ہوگئی تھی۔چینی کمیونسٹ پارٹی نے عالمی نظام کی پامالی ،چین کے سمندری علاقہ کی توسیع کرنے کے لیے مصنوعی جزیرے بنانے اور شمالی کوریا کے جوہری اسلحہ پروگرام کے باوجود اس کی حمایت شروع کر دی۔ چینی فوج نے بھی اپنی حقیر حیثیت کو ایک زبردست طاقت میں بدلنا شروع کر دیا۔1995سے فوجی اخراجات میں100فیصد اضافہ ہو گیا۔ مزید برآں چند ماہ پہلے پہلی بار ایک چینی عہدیدار نے تائیوان کے ساتھ اتحاد نو کی، جس کے حوالے سے چینی کمیونسٹ پارٹی نے موجودہ چین کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر2049میں کرنے کا وعدہ کیا تھا، بات کرتے ہوئے ”پر امن “ حذف کر دیا۔ اس کے سین سیانگ خطہ میں مسلم ایغوروں کے ساتھ اس کا سلوک بین الاقوامی قدروں اور اصولوں کے منافی ہے ۔
اس کے علاوہ چین کا اپنی کرنسی کو حصب منشاءچلانا، املاک دانش کا سرقہ اور دیگر اقتصادی ہیرا پھیریاں جیسے معاملات ہوئے۔ آخر میں چینی ہیکرز نے امریکی شہریوں کی نجی معلومات جمع کرنے کے لیے جارحانہ سائبر کارروائیاں شروع کر دیں تاکہ مستقبل میں ضرورت پڑنے پر اثر و رسوخ رکھنے والے رہنماو¿ں کو بلیک میل کیا جا سکے۔ایک اور تشویش ہے کہ ٹک ٹاک ایپ سے بھی یہی خطرہ لاحق ہے ۔امریکہ کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ چینی جارحیت کے خلاف با مقصد مزاحمت کرنے کے لیے مشرق ایشیا میں چین کے خلاف جنگ جیتنے کی فوجی صلاحیت پیدا کرے اور ایک ایسی فوج تیار کرے جو یورپ میں روس کے خالف اسی طرح کی مزاحمت کر سکے۔امریکہ کی فوج ان میں سے ایک کو شکست دینے کے لیے کافی ہے ، تمام وسائل مجتمع کرنے کے بعد بھی وہ بیک وقت دونوں کو شکست نہیں دے سکتی۔ماضی میں ولادمیر پوتین اور شی جن پینگ ایک دوسرے کو اپنے بہتری دوست قرار دے چکے ہیں اور فوجی تعاون بھی بڑھا رہے ہیں۔
ذہن میں مزاحمت کے ساتھ امریکی حکمت عملی ساز چین اور روس کو ایک دوسرے سے جدا نہیں سمجھ سکتے ۔ کسی ایک کے خلاف جنگ کا نتیجہ دونوں کے خلاف جنگ پر منطبق ہوگا۔چین کے فروغ کو یورپی تعاون کے بغیر سست کرنا یا روکنا ناقابل فہم ہے کیونکہ یورپی یونین چینی سامان کیتیسری سب سے بڑی درآمد کار ہے۔تیسر دنیا میں چین کی اور امریکہ کی سرمایہ کاری میں بڑھتا فرق بھی اقوام متحدہ اور اس کے معاون اداروں مثلاًورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) میں چین کی مدد کرتے ہیں۔جس میں شامل تمام ممالک چین اور چینی اعلیٰ نمائندوں کو ووٹ دیں گے۔ امریکہ نے اس کا توڑ کرنے کے لیے ان تنظیموں سے باہر ہوجانے کا اعلان کیا ہے۔جبکہ امریکہ کو چاہئے کہ وہ ان اداروں کو نظر انداز کرنے کے بجائے اپنا غلبہ پھر برقرار رکھنے کے لیے ان میں مزید سرمایہ کاری کرے۔