خواجہ محمد باقی باللہ کے نہایت مشہور جانشین شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے مسلمانوں میں نہایت خاص اور غیر معمولی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کا شجرہ نسب خلفائے راشدین میں دوسرے خلیفہ عمر فاروق سے ملتا ہے۔ شیخ احمد سر ہندی ابن شیخ عبد الا حد فاروقی 26 جون ،بروز جمعہ 1564 میں ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے قصبہ سرہند شریف میںولادت ہوئی اور اور 60سال کی عمر میں 10 دسمبر بروز منگل 1624 کو انہوں نے وفات پائی۔اور سرہند میں مدفون ہوئے۔
روضہ شریف کے نام سے ان کا مزارگوردارہ فتح گڑھ صاحب کے مشرقی جانب بستی پٹھانان ضلع فتح گڑھ کے سرہند شریف میں واقع ہے۔جہاںہر سال ان کے یوم وفات پر عرس منعقد ہوتا ہے۔ شیخ احمد سرہندی دسویں صدی ہجری کے نہایت ہی مشہور عالم و صوفی تھے۔ جو مجدد الف ثانی سے معروف ہیں ۔ آپ کے والد شیخ عبد الاحد ایک ممتاز عالم دین تھے اور صوفی تھے۔ صغر سنی میں ہی قرآن حفظ کر کے اپنے والد سے علوم متداولہ حاصل کیے پھر سیالکوٹ جا کر مولانا کمال الدیّن کشمیری سے معقولات کی تکمیل کی اور اکابر محدثّین سے فن حدیث حاصل کیا۔ آپ17 سال کی عمر میں تمام مراحل تعلیم سے فارغ ہو کر درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ تصوف میں سلسلہ چشتیہ کی تعلیم اپنے والد سے پائی، سلسلہ قادریہ کی شیخ سکندر کیتھلی اور سلسلہ نقشبندیہ کی تعلیم دہلی جاکر خواجہ باقی باللہ سے حاصل کی۔
1599 میں آپ نے خواجہ باقی باللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کے علم و بزرگی کی شہرت اس قدر پھیلی کہ روم، شام اور افغانستان وغیرہ تمام عالم اسلام کے مشائخ علما اور ارادتمند نے آپ سے استفادہ حاصل کیا۔ یہاں تک کہ وہ ”مجدد الف ثانی “ کے خطاب سے یاد کیے جانے لگے۔ یہ خطاب سب سے پہلے آپ کے لیے ”عبدالحکیم سیالکوٹی“ نے استعمال کیا۔ انہیںبارگاہ فلک رفعت،آرام گاہ عالی مرتبت،دربار گوہر بار،مزار پر انوار،اعلیٰ عظیم البرکت،قیوم ملت،خزین الرحمة،محدث رحمانی،غوث صمدانی،امام ربانی،المجدد المنور الف ثانی، ابو البرکات شیخ بد ر الدین احمد فاروقی،نقشبندی،سرہندی کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ طریقت کے ساتھ وہ شریعت کے بھی سخت پابند تھے۔
وہ تصوف کے مخالف نہیں تھے۔ انہوں نے ایسے تصوف کی مخالفت کی جو شریعت کے تابع نہ ہو۔ قرآن و سنت کی پیروی اور ارکان اسلام و احادیث کے مطابق زندگی گذارناہی آپ کے نزدیک کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ آپ کے مرشد خواجہ رضی الدین محمد باقی با اللہؒ نے ہندوستان میں تصوف کا نقشبندی سلسلہ متعارف کرایا اور آپ نے اس سلسلہ کو ترقی دی۔ آپ کو 1603 میں مرشد کی وفات کے بعد سلسلہ نقشبندیہ کی سربراہی کا شرف حاصل ہوا اور آخری عمر تک دعوت وارشاد سے متعلق رہے۔ چونکہ بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر ہزار سال کے بعد تجدید دین کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مجددمبعوث فرماتا ہے۔
اس لیے علما ئے کرام اس پر متفق ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کے بعد دوسرے ہزار سال کے مجدد آپ ہی ہیں اسی لیے آپ کو مجدد الف ثانی کہتے ہیں۔وہ بدعات کے شدید مخالف اور اس سے متنفر تھے۔بقول ان کے”لوگوں نے کہا ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں: بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ بدعت دافع سنت ہے، اس فقیر کو ان بدعات میں سے کسی بدعت میں حسن و نورانیت نظر نہیں آتی اور سوائے ظلمت اور کدورت کے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔“ اس ضمن میں انہوں نے علمائے سوءکی شدت سے مذمت کی۔ ان کے مطابق دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے۔
انہوں نے عدالت میں رائج اجتہاد کے اصولوں کی قانونیحیثیت کو بھی چیلنج کیا۔انہوں نے اس دور کے مغل امراءسے بھی مراسلت کا سلسلہ رکھا اور عدالت میں ملحدانہ نظریات کی جانب توجہ دلائی۔انہوں نے اپنے شاگردوں اورخلفاءکو اپنے روحانی مشن کی تبلیغ کے لیے مغل سلطنت کے ہر شہر و قصبہ میں مقرر کیا۔علمائ، صوفیوں، دانشوروں، امراء،فوجی و غیر فوجی عہدیداران اور عام افراد ان کے معتقدین ہو گئے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر کو سلطنت مغلیہ کے ہرشہر ،قصبہ اور گاؤں میں ان کے شاگرد ملے۔ ان کو زبردست کامیابی شہنشاہ جہانگیر کے دور میں حاصل ہوئی جب امراءکی کثیر تعرداد ان کی معتقد ہوگئی۔مجدد الف ثانی کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے دور ابتلا سے بھی گزرنا پڑا۔ بعض امرا نے مغل بادشاہ جہانگیر کو آپ کے خلاف بھڑکایا اور یقین دلایا کہ آپ باغی ہیں اور یہ ثبوت پیش کیا کہ مجدد الف ثانی بادشاہ کو تعظیمی سجدہ کرنے کے قائل نہیں ہیں اور اس کا ثبوت چاہیے تو انہیں شاہی دربار میں طلب کیا جائے۔1619ءبمطابق 1029ہجری کو جہانگیر نے مجدد الف ثانی کو دربار میں طلب کر لیا۔
آپ نے بادشاہ کو تعظیمی سجدہ نہ کیا۔ جب بادشاہ نے وجہ پوچھی تو آپ نے کہا ”سجدہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہ اللہ کا حق ہے جو اس کے کسی بندے کو نہیں دیا جا سکتا۔“ ۔بادشاہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ شیخ جھک جائیں لیکن مجدد الف ثانی اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ بعض امرا نے بادشاہ کو آپ کے قتل کا مشورہ دیا۔ غیر معمولی اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ تو نہ ہو سکا البتہ آپ کو گوالیار کے قلعے میں نظر بند کر دیا گیا۔جہاں وہ ایک سال قید رہے۔ آپ نے قلعے کے اندر ہی تبلیغ شروع کر دی اور وہاں کئی غیر مسلم مسلمان ہو گئے۔ قلعہ میں متعین فوج میں بھی آپ کو کافی اثر و رسوخ حاصل ہو گیا۔
بالآخر جہانگیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور آپ کو رہا کر دیا۔ رہائی کے بعد جہانگیر نے آپ کو اپنے لشکر کے ساتھ ہی رکھا۔انہوں نے مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے بنائے گئے دین الٰہی کی بھی شدت سے مخالفت کی کیونکہ اس
سے اسلام کا تشخص ختم ہو چکا تھا اور اسلام اور ہندومت میں فرق کرنا مشکل ہو گیا تھا۔مجدد الف ثانی کے سات صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں تھیں جن کے نام یہہیں:خواجہ محمد صادق،خواجہ محمد سعید،خواجہ محمد معصوم،خواجہ محمد فرخ،خواجہ محمد عیسیٰ،خواجہ محمد اشرف،خواجہ محمد یحییٰ(صاحبزادگان)۔بی بی رقیہ بانو،بی بی خدیجہ بانواور بی بی ام کلثوم(صاحبزادیاں)۔