ایم جے اکبر
آرٹیکل370کی تنسیخ کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ،پاکستانی جارحیت کی شکل میں ہمیں گاندھی کے چرچیلین مومنٹ کو یاد کرنا چاہئے
ایک بار جب14 اگست 1947 کو پاکستان ایک حقیقت بن گیا اور وہ اسے بدل نہیں سکتے ،مہاتما گاندھی نے برصغیر کے جسم پر لگے زخم کو مندمل کرنے کے لیے خو د کو اپنی پوری لگن کے ساتھ وقف کر دیا۔ 15اگست کو انہون نے آزادی کا، جو تقسیم ہند کی قیمت چکا کر حاصل کی گئی تھی ،جشن منانے سے انکار کر دیا۔ انہوں آل انڈیا ریڈیو سے یہ کہہ کر ششدر کر دیا کہ انہیں کچھ نہیں کہنا اور بی بی سی کو یہ کہہ کر چکرا دیا کہ وہ بھول جائیں کہ وہ انگریزی جانتے ہیں۔ جشن آزادی منانے کے بجائے انہوں نے سنگین تشدد اور خونریز و وحشیانہ مظالم کے شکار بنگال میں امن و سکون کے لیے جدو جہد کرنے کو ترجیح دی۔15اگست کو وہ دہلی کے بجائے ،جہاں ان کے نامزد رثائبرطانیہ کی پہنچ سے باہر اقتدار کے امکانات اور آزادی کا جشن منارہے تھے ،کلکتہ میں تھے جو غیر معمولی خونریزی کے امکانات سے تھرتھرا رہا تھا ۔ اپنی اخلاق جرات کی اکسیر کا استعمال کرتے ہوئے کلکتہ کے ایک ویران اور لاوارث مکان سے گاندھی نے بنگال میں اور اس کے بعد پورے مشرقی ہند میں امن قائم کیا ۔حتیٰ کہ انگریزی روزنامہ دی اسٹیٹسمین کے بزرگ ایڈیٹروں نے گاندھی کی کامیابی کو ایک معجزے سے تعبیر کیا۔لیکن مغرب ، پنجاب ، سندھ ، دہلی اور سرحد میں تقسیم کے بعد ناقابل یقین وحشیانہ خونریزی کے جنون میں مبتلا تھا۔ گاندھی کی آواز ، دل اور خیالات ونظریات باوجود اس کے کہ وہ خود بھی سفاکانہ تشدد کے خلاف اپنے غصے پر قابو نہ پاسکے تباہ حال پناہ گزینوں کے لیے نفسیاتی جائے پناہ بن گئے۔ستمبر سے گاندھی نے تباہ حال اور شدید غصہ میں مبتلا ہندوؤں ، سکھوں اور مسلمانوں کا، جو اپنا سب کچھ گنوا چکے تھے ، پر سکون رہنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ کیمپوں کے لیے، جہاں محروم اور شکستہ حال لوگ رہیں گے، کمبل جیسی لاکھوں لازمی اشیاءجمع کرنے کے لیے عملی کوشش شروع کر دی۔
اس بھیانک اور خون آشام دور میں بھی ان لوگوں کو جو اب بھی انسانیت میں یقین رکھتے تھے صرف گاندھی پر اعتماد تھا۔15اکتوبر 1947کو نامعلوم مگر جو یقیناً مسلمان دستکار تھے پناہ گزینوں میں بانٹنے کے لیے کمبل اور پیسے لائے ۔گاندھی نے اس عطیہ کے حوالے سے لکھا ” انہوں نے اپنے نام نہیں بتائے۔ میں ے ان سے کہا کہ یہ سامان آپ خود ہی اپنے ہم مذہب لوگوں میں جو متاثر ہوئے ہیں تقسیم کر دیں ۔لیکن انہوں نے کہا کہ وہ یہ سارا سامان گاندھی کے ہاتھوں میں ہی دینا چاہتے ہیں کیونکہ یہ سامان مغربی پنجاب کے لٹے پٹے ہندوو¿ں اور سکھوں میں بانٹا جانا چاہئے۔میں ان کے جذبہ سے نہایت متاثر ہوا۔موجودہ حالات میں اگر کچھ مسلمان یا ہندو یا سکھ ایسا مستحسن کام کریں تو ان کے اس کام کو سنہری حروف سے لکھا جانا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ایک وقت وہ مجھے مسلمانوں کا دشمن سمجھتے تھے لیکن اب وہ قائل ہوگئے ہیں کہ میں سب کا دوست ہوں کسی کا دشمن نہیں۔ اس لیے میں ہوں اور ایسا ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں۔ مجھے اس کے لیے کسی سے سرٹی فیکٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔میں محض پانچ سات سال سے اس جذبہ کے ساتھ نہیں جی رہا بلکہ گذشتہ60برس سے میرے اندر یہی جذبہ ہے۔(دی کلکٹڈ ورکس آف مہاتما گاندھی، جلد97، پبلیکیشن ڈویژن ، صفحہ 91)۔
غیر فوجی ٹکراؤ کا زہر دو نئے ملکوں کے درمیان جنگ کے امکان سے بڑھنے لگا۔ کشیدگی کا جرثومہ جموں و کشمیر کا مستقبل تھا جس کا ابھی تک فریقین میں سے کسی سی بھی الحاق نہیں ہوا تھا۔ 27ستمبر1947کو گاندھی نے ایک بات واضح کر دی۔ ”ہندستان اور پاکستان میں جنگ کی صورت میں ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہوجانا چاہئے۔عدم تشدد کا پیامبر قوم پرستی کے فرائض کے حوالے سے بھی اتنا ہی شفاف ہے جیسا برطانوی سامراج کے خلاف اس کا عہد تھا۔وہ جنگ نہیں چاہتا لیکن اگر چھڑی تو ہر ہندوستانی کی ذمہ داریاں واضح طور پر متعین ہیں۔جیسا کہ گاندھی نے جولین ہکسلی کو لکھا ” میں نے اپنی ناخواندہ مگر سمجھدار ماں سے سے سیکھا ہے کہ فرض کی عمدگی سے ادائیگی سے ہی تمام حقوق کا استحقاق اور محفوظ کیے جاتے ہیں۔( یہ مکتوب اقوام متحدہ کے ہفت روزہ بلیٹن 17اکتوبر1947میں شائع ہوا تھا)َ۔
محمد علی جناح کا پاکستان جس کا وجود تقسیم ہند سے آیا تھا ،عظمت و وقار اور جھوٹی شان میں فرق سمجھنے سے قاصر تھا اور نہ ہی تبادلہ خیال کا خواہاں تھا،بجنگ آمد ہو گیا اور اکتوبر1947کے ماہ اکتوبر کے آخری ہفتہ میں کشمیر پر قبضہ کے لیے بے وقت کی راگنی چھیڑنے کے مصداق قبل از وقت جنگ چھیڑ بیٹھا ۔اور یہ اس جنگ کا آغاز تھا جو سات عشروں کے بعد بھی تھم نہیں سکی ہے۔پاکستان کی اچانک فوجی کارروائی کے حوالے سے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کا پہلا سرکاری بیان 24اکتوبر بروز جمعہ تھائی لینڈ کے وزیر خارجہ کے اعزاز میں دیے گئے بفے ڈنر میں آیا۔
اگلی صبح ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل اور آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی قیادت میں دیفنس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں لی ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف لیفٹٹنٹ جنرل روب لاوک ہارٹ پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹر سے موصول ایک ٹیلی گرام پڑھا جس میں کہا گیا تھا کہ کم و بیش5ہزار قبائلیوں نے حملہ کر کے مظفر آباد اور ڈومیل پر قبضہ کر لیا ہے اور ایک بڑی تعداد میں قبائلی تازہ کمک کا بھی پہنچا متوقع ہے۔ گورنر جنرل کے پریس سکریٹری ایلن کیمپ بیل جانسن کے پاس موجود ڈائری کے مطابق رپورٹیں بتا رہی تھیں کہ وہ پہلے ہی سری نگر سے 35میل سے کچھ زائد دوری تک پہنچ چکے ہین(ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مشن کے عنوان سے 1951میں شائع) جموں وکشمیر سادہ لوح اور حواس باختہ مہاراجہ ہر ی سنگھ نے ہندوستان سے مسلح امداد کی درفخواست کی لیکن ماو¿نٹ بیٹن نے ہندوستان سے الحاق کو مدد کے لیے ضروری شرط پوری کرنے پر اصرار کیا ۔ ماو¿نٹ بیٹن ابھی بھی برطانوی کی شاہی حکومت کا نمائندہ تھا اور ابھی تک ہندوستانی کے انچارج بھی برطانوی افسران ہی تھے اور وہ کوئی کاغذی کارروائی پر کیے بغیر کسی حالت میں ہندوستانی فوج کو سری نگر کوچ کرنے کے حق میں نہیں
کیمپ بیل جانسن نے بتایا کہ اس وقت تک جو بھی کارروائی کی گئی تھی اس کو مہاراجہ کے الحاق کے اعلان نے قانونی حیثیت دے دی۔اس کے بعد برطانیہ الحاق کو منظور کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔ بلا شبہ جب جناح نے سری نگر میں ہندوستانی فوجوں کی آمد کے جواب میں پاکستانی فوج کے نگراں کمانڈر انچیف لیفٹننٹ جنرل سر ڈوگلس گریسی کو جنگ کے لیے اپنی فوج بھیجنے کا حک دیا تو گریسی نے جواب دیا کہ وہ سپریم کمانڈر (ماؤنٹ بیٹن) کی منظوری کے بغیر ایسی کوئی ہدایت جاری کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔بابائے آزادی گاندھی کو ان کے پیر و کار ورثاءنے ان فیصلہ کن حالات سے بے خبر رکھا۔ بعد میں کسی قسم کے اظہار افسو کے بغیر گاندھی نے کہا کہ مجھے صرف اتنا ہی علم ہے جتنا میں نے اخبارات میں پڑھا۔انہوں نے لوگوں سے انفرادی و وفد سطح پر ملاقاتوں کا اور شام میں پوجا کا پروگرام جاری رکھا ۔25اکتوبر1947کو انہوں نے کمیونسٹوں کے ایک گروپ کی ان میں حب الوطنی کے فقدان پر لعنت ملامت کی۔”کمیونسٹ ہڑتالیں کرنا،بے چینی و بے اطمینانی پھیلانا اور سیاسی بے چنین وبدامنی پیدا کرنا اپنا فریضہ عظیم سمجھتے ہیں“۔لوگ روس سے معلومات و ہدایت حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے کمیونسٹ اس قابل رحم حالت کا شکار نظر آتے ہیں“۔26اکتوبر کو مسلمانوں کا تہوار بقرعید تھا ۔گاندھی کے پاس مسلمانوں کے لیے ایک طاقتور پیغام تھا ۔” عدم تشدد کی آزمائش ہمیشہ تشدد کے دور میں ہوتی ہے، رحم کی آزمائش ظلم کے سائے میں، سچ کا جھوٹ میں، اور محبت کی نفرت میں آزمائش ہوتی ہے“۔ یہ ابدی قانون ہے ۔
اگر اس مقدس موقع پر ہم ایک مقدس عہد کریں کہ ہم خون کا بدلے خون نہیں بہائیں گے بلکہ اس کے بجائے خود پر قابو رکھ کر انہیں معاف کردیں گے۔ہم تاریخ بنائیں گے۔یسوع مسیح نے صلیب پر خدا سے کہا تھا کہ جنہوں نے انہیں پھانسی چڑھایا ہے انہیں معاف کر دے۔یہ میری خدا سے ہمہ وقت دعا ہے کہ مجھے نبرد آزما فریقوں کے درمیان صلح کرانے کی ہمت دے خواہ اس راہ میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔اور یہی دعا آپ کی بھی ہونی چاہئے کہ تیرے فرمانبردار بندہ کومعاف کرنے کی طاقت دے سکے۔(مہاتما گاند ھی : دی لاسٹ فیز ، جلد 2میں گاندھی کے سکریٹری پیارے لال کے حوالے سے)کشمیر پر گاندھی کے پہلے ریمارکس 26اکتوبر 1947کی شام میں ان کی دعائیہ مجلس میں سننے کو ملے۔”ہاں مجھے اس ضمن میں (کشمیر) سب معلوم ہے۔ لیکن مجھے اتنا ہی علم ہے جتنا میں نے اخبارات میں پڑھا ہے۔اگر وہ تمام خبریں درست ہیں تو یہ واقعتاً ایک خراب صورت حال ہے۔میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ اس انداز سے ہم نہ اپنے مذہب کو بچا سکتے ہیں نہ خود کو۔ یہ پتہ چلا ہے کہ پاکستان کشمیر پر پاکستان میں شامل ہوجانے کا دباؤ ڈال رہا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔کسی سے بھی کوئی چیز زور زبردستی سے نہیں چھینی جا سکتی۔انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں پر حملے نہیں کیے جاسکتے اور ان کے گاؤں جلا کر انہیں مجبور نہیں کیا جاسکتا۔اگر کشمیر کے یہ لوگ ، مسلم اکثریت کے باوجود ہندوستان سے الحاق چاہتے ہیں تو انہیں اس سے کوئی نہیں روک سکتا۔
حکومت پاکستان کوکشمیر کے لوگوں کو مجبور کرنے کے لیے جانے والے اپنے لوگوں کو روکنا چاہئے۔ ۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو نتائج کی تمام تر ذمہ داری پاکستان پر ہی عائد ہو گی۔اگلے روز گاندھی نے متحدہ بنگال کے آخری وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کو،جنہوں نے اگست1946کو خونیز فرقہ وراناہ فسادات بھڑکانے میں اپنا ہاتھ ہونے کا گاندھی کے اصرار پر 1947میں سرعام اعتراف کر لیا تھا، ایک مکتوب ارسال کیا۔ 27اکتوبر1947کو لکھے گئے گاندھی کے اس مکتوب میں لکھا تھا” ہندو اور مسلمان دو قومیں نہیں ہیں۔ مسلمان کبھی ہندوو¿ں کے غلام ہو سکتے ہیں اور نہ ہندو مسلمانوں کے۔ لہٰذا تمہیں اور مجھے انہیں دوستوں اور بھائیوں کی طرح ،جو کہ وہ ہیں، متحد رکھنے کی جی جان سے کوشش کرنا ہوگی۔ گاندھی کو اس حقیقت میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا تھا کہ مسلم اکثریتی صوبہ متحدہ ہندوستان میں شمولیت چاہتا ہے۔29اکتوبر تک ہندوستانی فوجیں سری نگر ہوائی اڈے کو بچا چکی تھیں لیکن دارالخلافہ کے 5میل کے دائرے کے اندر جنگ ابھی جاری تھی۔گاندھی نے 90منٹ تک ماؤنٹ بیٹن سے بات کی اور آخر کار جاری بحران سے متعلق تفصیل معلوم ہو گئی۔ اسی شام اپنے دعائیہ مجلس میں گاندھی نے ہندوستان پر تھوپی جنگ کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔انہوں نے اسے” ایک حیران کن واقعہ“ بتایا۔ گاندھی نے کہا کہ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان سے الحاقکے لیے مہاراجہ ہری سنگھ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور ہندوستانی فوجیں بھیجنے کے فیصلہ کو سراہا ہے۔ انہوں نے فضائی راستے سے فوج کی نقل و حرکت میں دشواریوں کی وضاحت کی اور شمال مغرب صوبہ سرحد سے کثیر تعداد میں آنے والے لوگوں کے خلاف ،جوپاکستانی فوجی افسران کی زیر نگرانی تربیت یافتہ اور مسلح قبائلی تھے، 1500ہندوستانی فوجیوں کی شجاعت کی تعریف کی۔گاندھی نے حکومت سنبھلنے والے شیخ عبد اللہ کی تعریف کی۔
مہاتما نے انہیں ”شیر کشمیر“ کہہ کر مخاطب کیا وہ جوکر رہے تھے جو ایک فرد واحد کر سکتا ہے ۔انہوں نبے سب کچھ کرنے کا فیصؒہ کر لیا۔ ریاست کی عوام ان کے ساتھ تھی۔ لیکن حملہ آور قبائلیوں کی بربریت کے ماحول میں بھی جوابی کارروائی میں ان کی سطح تک نہیں اتر سکتے تھے۔ مناسب طریقہ یہی تھا کہ معاملہ پیشہ ور فوجیوں پر ہی چھوڑ دیا جائے۔انہیں کیا کرنا چاہئے؟ انہیں آخری سانس تک لڑتے رہنا چاہئے اور لڑتے ہوئے جان قربان کردینی چاہئے۔مسلح فوجیوں کا فرض پیش قدمی کرتے رہنا اور حملہ آور دشمن وک پسپا کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے ان1500ہندستانی سپاہیوں نے ایک کوشش کی ۔لیکن ان سب نے اپنی اصل ذمہ داری اس وقت نبھائی جب ان سب نے سری نگر بچانے میں اپنی جان دے دی۔اور سری نگر کے ساتھ ہی پورا کشمیر بچ جائے گا۔“ قربانی کا مرکزی خیال شہریوں تک پہنچا”اب اگر کوئی کشمیر کو بچا سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف مسلمان، کشمیری پنڈت، راجپوت اور سکھ ہی ہو سکتے ہیں ۔شیخ عبداللہ کے ان سب سے محبانہ اور دوستانہ تعلقات تھے۔ یہ ممکن تھا کہ کشمیر کو بچانے کے ساتھ ساتھ شیخ عبداللہ کو اپن زندگی قربان کرنا پڑ سکتی تھی، ان کی بیگم اور ان کی بیٹی ماری جا سکتی تھیں اور کشمیر کی تمام خواتین ہلاک ہو سکتی تھیں۔اور اگر ایسا ہوا تو میں کسی ایک کے لیے آنسو نہیں بہاؤں گا۔اگر ہماری تقدیر میں جنگ ہی لکھی ہے تو ہم جنگ کریں گے۔“گاندھی جانتے تھے کہ باوجود اس کے کہ پاکستان اسے آزاد بغاوت کہہ رہا تھا حملہ آوروں کا وجود پاکستان کی حمایت کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا تھا ۔اس حملہ کو ایک فوجی جواب اور شہریوں کی قربانی سے پسپا کرنے کی مجبوری کے حوالے سے ان کے کوئی تحفظات نہیں تھے۔”اگر جنگ میں کشمیر کے لوگ مارے جاتے ہیں تو کون باقی بچے گا؟ شیخ عبداللہ نہیں رہیں گے کیونکہ ان کی شیر دلی آخری دم تک کشمیر کے لیے لڑنے اور اسے بچانے میں ہے۔ وہ مسلمانوں کو بچائیںگے،اور سکھوں کو بھی بچائیں گے اور ہندوؤں کو بھی بچائیں گے۔ ان کی بیوی نماز بھی پڑھتی ہیں۔ انہوں نے اپنی مدھر آواز میں اعوذ باللہ پڑھا ۔ میں ان کے گھر بھی گیا ۔وہ مسلمانوں سے پہلے ہندوؤں اور سکھوں کو نہیں مرنے دیں گے۔“
اگست1947کے پہلے ہفتہ میں اپنے دورہ وادی کشمیر کے دوران گاندھی نے صرف بیگم عبداللہ سے ملاقات کی انہوں نے پاکستان کے خلاف کشمیر کی جدوجہد اور فرقہ واارانہ درندگی کے بعد عوام میں گھولے گئے زہر کا اثر زائل ہونے کی امید کی کرن دیکھی۔ اگر یہاں ہندو اور سکھ اقلیت مٰں ہیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔اگر شیخ کا یہ رویہ ہے اور ان کا مسلمانوں پر اثر ہے تو صورت حال؛ ہمارے حق میں ہے۔عوام میں جو زہر گھول دیا گیا ے اسے رگوں میں سرایت نہیں ہونے دینا چاہئے۔اگر وہ اس زہر کا اثر زائل کرنے کے لیے ایسی قربانی دے سکتے ہیں تو ہماری آنکھیں بھی کھل جانا چاہئیں۔قبائلیوںکو صرف امر کاٹ میں دلچسپی تھی۔اس لیے انہوں نے کشمیر پر حملہ کیا اور اپنی طاقت کا بھی مظاہرہ کیا۔میں ان سب کو جانتا تھا جو ان کے ساتھ تھے۔لیکن نتیجہ یہ نکلے گا کہ اگر کشمیر کے تمام ہندو اور مسلمان اپنی جانیں قربان کر دیں تو وہ ہماری آنکھیں بھی کھول دے گا۔تب ہمیں علم ہوگا کہ سارے مسلمان ہی برے اور غیر مخلص نہیں ہیں۔ اسی طرح یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ تمام ہندو اور سکھ اچھے اور پارسا ہیں یا بے حیثیت اور کافر ہیں۔مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں ،سکھوں اور ہندوؤں میں اچھے لوگ بھی ہیں۔اور اسلحہ اٹھائے چل رہے لوگوں کی وجہ سے نہیں بلکہ انہی اچھے لوگوں کی وجہ سے دنیا چل رہی ہے۔گاندھی نے قربانی کی اخلاقی قوت کے تصور کے ساتھ تقریباً فاتحانہ انداز اختیار کیا۔”اگر اپنی سررزمین کا دفاع کرتے ہوئے ہر کشمیری نے اپنی جان قربان کر دی تب بھی مجھے خوشی میں رقص کرنا چاہئے۔برطانوی ڈائری نویس جانسن کیمپ بیل نے گاندھی کا موازنہ اسپارٹنز سے کیا اور 29اکتوبر کو اپنی ڈائری میں لکھا کہ کشمیر پر مہاتما کا موقف کم و بیش چرچل جیسا تھا۔
اس نے لکھا ”نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے، انسان سوائے اس کے کچھ نہیں کر سکتا کہ کچھ کر گذرے یا مرجائے۔اور اگر تھرموپائلے کا جس بہادری سے دفاع کرتے ہوئے اسپارٹنز سے جانیں قربان کر دی تھیں اسی طرح اس چھوٹی سی ریاست کی فوج کا بھی صفایہ ہو گیا تو اس کی آنکھ سے ایک آنسو نہیں ٹپکے گا۔نہ ہی وہ اس بات کی پروا کرے گا کہ شیخ عبد اللہ اور اس کے مسلمان، ہندو اور سکھ ساتھی کشمیر کے دفاع میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔یہ باقی ہندوستان کے لیے ایک شاندار مثال ہو گی۔ ایسے دلیرانہ انداز سے دفاع کرنا پورے برصغیر پر اثر انداز ہوگا اور ہر شخص بھول جائے گا کہ ہندو مسلمان اور سمکھ کبھی ایک دوسرے کے دشمن تھے۔اسی دوران ماؤنٹ بیٹن جناح کو اس پرآمادہ کرنے میں لگے تھے جارحانہ رویہ ترک کر دیں۔ انہوں نے جناح سے لا ہور میں ملاقات کی اور اپنے پریس سکریٹری سے کہا کہ وہ اپنی ساڑھے تین گھنٹے کی بات چیت سے بہت خوش ہیں۔ماؤنٹ بیٹن نے کیمپ بیل جانسن سے کہا جو کہ2نومبر کو ڈائری کے لیے ایک کھلے قصہ کے طور پر لکھا گیاکہ دونوں میں اس بات پر بحث ہوگئی کہ جنگ کا ذمہ دار کون ہے۔ماؤنٹ بیٹن نے یہ مانا کہ الحاق بلاشبہ تشدد سے کیا گیا لیکن یہ تشدد بھی قبائلیوں نے ہی شروع کیا جس کاہندوستان نہیں پاکستان ذمہ دار ہے ۔ نجی طور پر کسی کو اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ جناح نے حکم دیا تھا اور کشمیر میں آزادی کی بغاوت اسی کی دین تھی۔ جناح نے دھوکے فریب سے کام لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ہندوستان نے فوج بھیج کر تشدد برپا کیا ہے جو کہ حقیقت کے برعکس تھا۔ ماؤنٹ بیٹن اپنی بات پر اڑے رہے جس سے جناح چڑ گئے اور خود پر قابو نہ پاسکے ۔
ماؤنٹ بیٹن اتنا آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے جناح کو کشمیر میں ہندوستانی فوج کے جماؤ کا بھی بتا دیا اور یہ واضح کر دیا کہ اب سری نگر میں قبائلیوں کے داخلے کا دور دور تک کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس نے جناح کو ہلا کر رکھ دیا اور پاکستانی لیڈر نے ڈرامائی انداز میں اپنا موقف بدل لیا ۔میں ڈائری میں جو لکھا ہے من و عن حوالہ دیتا ہوں” اس نے جناح کو اپنی پہلی عام تجویز پیش کرنے پر مجبور کر دیا کہ فریقین کو فوری طور پر بیک وقت اپنی فورسز کو واپس بلا لینا چاہئے ۔جب ماؤنٹ بیٹن نے اس بات کی وضاحت کرنے کہا کہ قبائلیوں واپس جانے پر کیسے آمادہ کیا جا سکتا ہے تو جناح کو جواب تھا ”اگر آپ فوج کو واپس بلالیں گے تو باقی کام میں پورا کر دوں گا“ جس سے یہ پتہ چل گیا کہ عوام میں جو یہ بات پھیلائی جا رہی تھی کہ قبائلیوں کا حملہ پاکستان کے کنٹرول کے باہر ہے نجی گفتگو میں ایس نہیں کہا گیا ۔باالفاظ دیگر جناح نے اعتراف کر لیا یہ قبائلی حملہ پاکستان نے ہی کرایا تھا اور اسی نے جنگ شروع کی تھی۔جناح غیر یقینیت اور تضادات کا مرکب تھا۔ ماؤنٹ بیٹن نے پہلی بار یہ خیال ظاہر کیا کہ اقوام متحدہ کے پرچم تلے استصواب رائے کے ذریعہ کوئی حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ جناح نے اس تجویز کو یکسر مسترد کردیا۔ جناح کا خیال تھا کہ کمزور مسلمان کشمیری پاکستان کے حق میں ووٹ نہیں کریں گے حالانکہ انہوں نے اس کا سبب’خوف ‘ بتایا۔ کیمبل جانسن نے جناح کے موقف کو اس طرح بیان کیا”انکوائری کرانے سے ماؤنٹ بیٹن کو علم ہوا کہ جناح کا استصواب رائے سے متعلق رویہ ان کے اس یقین سے مشروط تھا کہ کشمیر پر قبضہ میں ہندوستانی فوجوں اور اقتدار میں شیخ عبد اللہ کے اشتراک کامطلب یہ ہے کہ اوسط درجے کے مسلمان اتنے خوفزدہ ہوں گے کہ وہ پاکستان کو ووٹ نہیں دیں گے۔
ماؤنڑٹ بیٹن اقوعام متحدہ کے زیر نگرانی رائے شماری کے حق میں تھے جبکہ جناح اس پر مصر تھے کہ صرف دو گورنر جنرل اس معاملہ کا تصفیہ کر سکتے ہیں۔ جناح کے رویہ سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ حواس باختہ ہیںاور ڈیپریشن میں ہیں اور اس حد تک ہیں کہ جبریت کے قائل نظر آنے لگے۔ ان کی ایک ہی رٹ تھی اور خوف دامنگیر تھا کہ ہندوستان ان کے بنائے ملک کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ جبکہ اس کے برعکس گاندھی کو کشمیر کے بارے میں مکمل یقین تھا۔ انہوں نے یکم نومبر1947ک کی شام میں اپنی دعائیہ مجلس میں (جس میں دلیپ رائے نے” ہم ایسے دیش کے باسی ہیں جہا ں کو غم ہے نہ آہ بھجن گایا)”یہان سے جو جہاز پرواز بھر رہے تھے میرا اندازہ تھا کہ اس میں فوجی کشمیر جا رہے ہیں۔ وہان سے کچھ بزدلوں نے راہ فرار اختیار کرنا شروع کر دی تھی۔ وہ ایسا کیوں کر رہے تھے؟ وہ کہان جائیں گے؟ انہوں نے باہدری سے مقابلہ کیون نہیں کیا اور کیوں اپنی اجنیں قربان نہیں کیں۔ ایسے حالات میں اگر پورا کشمیر بھی تہس نہس ہو جاتا مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا تھا۔میں چاتا تھا کہ ہر چھوٹا بڑا شجاعت کے ساتھ کشمیر کے دفاع میں اپنی جان قربان کر دے اس سے مجھے زیادہ خوشی ہوگی۔
اگر کوئی پوچھے کہ بچوں کو کیوں مرنا چاہئے تو میں کہوں گا کہ بچے کہیں نہیں جا سکتے ۔کسی بجی صورت میں وہ اپنے والدین کے ساتھ ہوں گے۔ یہ لوگ سب کشمیر میں تھے ہم انہیں کیسے اسلحہ فراہم کر سکتےءتھے۔میرے جیسے کسی شخص کو اسلحہ کی ضرورت نہٰں تھی۔بہر حال اگر ہم زندہ ہیںتو ہمیں اپنی جان کی قربانی دینا پڑے گی۔ جبھی تو ہم کہہ سکتے ہیںکہ روح لافانی ہے ۔اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم اپنی روح کو کنفیوز کر رہے ہیں اور جسم کو پوجتے ہیں۔ جبکہ جسم کو ایک دن مر جانا ہے ۔اگر بچہ ماں کی گود میں ہوگا اور ماں مر جائے گی تو بچہ بھی مر جائے گا۔اور جب کوئی مرنے پر کمر بستہ ہو جائے تو اسے خوشی خوشی اپنی مرضی سے مرنے دینا چاہئے ۔انہیں یہ کہنے دیا جائے کہ اگر آفریدیوں نے ( وادی کشمیر پر حملہ آور قبائلی )انہیں تباہ کرنے کے لیے کشمیر کا رخ کیا ہے تو وہ اپنی رضا مندی سے تباہ ہونے کو ترجیح دیں گے۔ یہاں تک کہ وہ فوجی جو وہاں گئے بخوشی جان قربان کر دیں گے۔ وہ وہاں مرنے کے لیے ہی گئے تھے۔ وہ کب زندہ رہ سکتے ہیں؟ صرف اس صورت میں زندہ رہ سکتے ہیں جب انہیں اس بات کا علم ہو جائے گا سب کچھ محفوظ ہے اور کشمیر پر کوئی حملہ نہیں کیا گیا اور مکمل طور پر امن و امان ہے۔ یہ کسی شک و شبہ کے بغیر دیا گیا ایک طاقتور پیغام تھا۔: ہندوستان کے فوجی کشمیر کی حفاظت کی ضمانت دیں گے ہندوستان کے فوجی جارحیت کو شکست دے کر اور امن قائم کر کے کشمیر کی حفاظت کی ضمانت دیں گے ۔ایلن کیمپ بل جانسن نے گاندھی کی تقریروں کو تقریباً چرچیلین جیسی بتایا۔ ایک جانباز برطانوی سپاہی کو جس کی ملازمت کے چار سال مشترکہ کارروائیوں اور جنوب مشرق ایشیا کمان میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ہیڈ کوارٹر اسٹاف میں گذرے ہیں،سی آئی ای، او بی ای اور لیجین آف میرٹ (فوجی تمغہ امتیاز) امریکہ سے سرفراز کیا گیا ہو اور جنہوں نے ونسٹن چرچل کوتباہ شدہ لیکن غیر شکستہ برطانیہ کو ہٹلر کی ناقابل شکست جنگی مشین کے خلاف کامیابی دلا تے دیکھا مہاتما کے لیے جنہوں نے برطانوی سامراج کو گھٹنوں کے بل گرادیا تعریف کے لیے کوئی الفاظ نہیں ہو سکتے۔
