افغانستان کے طالبان کے ساتھ امریکہ کے امن معاہدے کا اہم جزو یہ عہد تھا کہ کسی بھی انتہاپسند گروپ کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف سازش رچنے کے لیے سرززمین افغانستان کو استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا۔لیکن کہیں طالبان محض امریکہ کو خوش کرنے ا ور اس کی فوجوں کی وطن سے واپسی کے لیے ہی تو یہ ڈھونگ نہیں کر رہا کہ افغانستان میں اس کے زیر کنٹرول علاقوں میں اب اس کے دیرینہ رفیق القاعدہ گروپ کے آستانے یا مجاہدین نہیں ہیں؟ فروری میں کیے جانے والے اس تاریخی معاہدے کے ایک جزو کے طور پر طالبان نے جو دیگر معاملات پر رضامندی ظاہر کی ان میں یہ بھی شامل تھا کہ القاعدہ جیسے انتہاپسند گروپوں کو پناہ نہیںدی جائے گی اور سرزمین امریکہ پر 9/11حملے کرانے والے عالمی دہشت پسند گروپ سے قطع تعلق کر لیا جائے گا۔اس عہد کے بعد امریکہ نے افغانستان سے مکمل انخلاءکا وعدہ کر لیا۔اس انخلاء کے حوالے سے کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سے طالبان کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ فی الحال افغانستان میں5000امریکی فوجی ہیں جو2021کے اوائل میں کم ہو کر 2500رہ جائیں گے۔امریکہ طالبان اورصدر اشرف غنی کی موجودہ حکومت کے درمیان سیاسی مصالحت کرانے میں بھی معاونت کر رہا ہے۔
اگرچہ قطر کے دارالخلافہ دوحہ میں جاری امن مذاکرات میں کوئی قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوئی ہے پھر بھی ایک معاہدہ طالبان کی ایک سیاسی فریق کے طور پر عالمی قانونی حیثیت بحال ہو جائے گی۔پھر بھی کلیدی سوال تشنہ جوں کا توں ہے کیا افغانستان میں القاعدہ کی تین عشروں پر محیط تاریخ اوراق پارینہ بن جائے گی؟ کیا القاعدہ کے، جو بہت پہلے افغانستان کی دور افتادہ اور پہاڑی مقامات میں طویل عرصہ سے ظہور پذیر ہوا ، حملوں سے دنیا محفوظ ہو جائے گی؟ اس کلیدی سوال کے دو تجزیہ کاروں نے مختلف جوابات دیے ہیں۔ کچھ لکیر کے فقیر سادہ لوحی سے یہ دعویٰ کرتے نہیں کہ اب افغانستان میں القاعدہ کا وجود ہی نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس دعوے کی تردید کرنے والوں کا اصرار ہے کہ القاعدہ کی حالیہ خاموشی امریکہ کے ساتھ طالبان کے امن معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنی موجودگی کو خفیہ رکھنے کی متفقہ حکمت عملی ہے۔اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ افغانستان آج بھی اسلامی انتہاپسند گروپ کے لیے ایک من پسند اور خفیہ آستانہ ہے جو ہمیشہ کی طرح علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بنا ہوا ہے۔وہ عناصر جو افغانستان سے امریکی فوجوں کی جلد از جلد واپسی اور جو طالبان کو دوبارہ بر سر اقتدار دیکھنا چاہتے ہیں 29فروری2020کو دوحہ میں امریکہ طالبان امن معاہدے کی زبردست حمایت کر رہے ہیں۔انہیں اس بات کا احساس ہے ہ اگر افغانستان میں القاعدہ سے لاحق خطہ برقرار رہنے کا کوئی نئی شہادت مل گئی تو اس سے ایک حتمی امریکہ طالبان معاہدے پر کاری ضرب لگے گی اور اس کے لیے ہونے والی زبردست کوششیں ٹائیں ٹائیں فش ہو جائیں گی۔اس لیے وہ یہ باور کرانے پر مصر ہیں کہ اب ملک میں القاعدہ کا کوئی وجود نہیں ہے۔
جو لوگ یہ باور کرانے پر تلے ہیں وہ ظالبان، ان کے افغان ہمدردان اور کئی غیر ملکی طاقتیں ہیں۔اس فہرست میں طالبان کے کئی افغان نقاد بھی ہیں جو اسلامی گروپ کی حمایت تو نہیں کرے لیکن اس بات میں یقین رکھتے ہیںکہ افغانستان کی فساد کی جڑ غیر ملکی فوجوں کی موجودگی ہے اسی ہلیے وہ چاہتے ہیں کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے امریکی فوجیں ملک طھوڑ کر چلی جائیں۔ طالبان اور ان کے حامیوں نے ہر اس شخصیت پر جو افغانستان میں القاعدہ کے وجود کی بات کرتی ہے ”امن مخالف“کا ٹھپہ لگادیتے ہیں۔لیکن افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی کا نہایت معتبر دعویٰ دولت اسلامیہ فی العراق و الشام (داعش) اور طالبان پر نظر رکھنے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندی کمیٹی کے کوآرڈی نیٹر ایڈ منڈ فیٹن براو¿ن نے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں حالیہ آن لائن سمینار میں کیا ہے ۔جس میں انہوں نے کہا کہ طالبان کے القاعدہ کے مصری سربراہ ایمن الظواہری سمیت افغانستان میں القاعدہ قیادت سے تعلقات برقرار ہیں۔ماضی میں القاعدہ طالبان کے ساتھ اپنے خوشگوار تعلقات کا اعتراف کر چکی ہے، سابق اور موجودہ بشمول مقتول بانی اسامہ بن لادن اور ظواہری طالبان کو خراج تحسین پیش کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی اسپیشل بریگیڈ میں سے ایک کا نام بھی طالبان کے بانی ملا محمد عمر پر رکھا ہے۔2004سے 2015تک نہایت مضبوط اور محفوظ ٹھکانے پاکستان کے وزیرستان سے القاعدہ کی واپسی کے بعد ظواہری نے ایک عوامی بیان سے القاعدہ اور طالبان کے درمیان قربت ظاہر ہو گئی تھی۔امریکہ کے ایک زبردست فضائی حملہ اور پھر پاکستانی فوجی کارروائی کے بعد القاعدہ کے لیے وزیرستان جہنم بن گیا تھا۔
ظواہری نے اپنے بیان میں اعتراف کیا تھا کہ یہ وقت القاعدہ کی تاریخ کا نہایت درجہ تکلیف دہ تھا لیکن یہ طالبان ہی تھے جنہوں نے ہم پر احسان کیا اور ان نامساعد حالات میں افغانستان کے اندر اپنے ٹھکانوں میں القاعدہ کے اراکین کو جگہ دے کر القاعدہ کو وزیر ستان سے بحفاظت نکال لیا۔ اس امریکی کارروائی میں مستقبل کے رہنما کے طور پر برسوں سے زیر تربیت حمزہ بن لادن اور الظواہری کے بعد سب سے سینیئر رہنما شیخ ابو خلیل المدنی سمیت القاعدہ کے کئی سینیئر مرکزی رہنما مارے گئے تھے ۔القاعدہ میڈیا کے سربراہ حشام عبد الرو¿ف کی حالیہ ہلاکت اس امر کی شاہد ہے کہ سینیئر القاعدہ اراکین کو افغان طالبان کے کس طرح تحفظ بہم پہنچا رہے ہیں۔