Threat of Military action will compell Iran to start serious talks: says Israelتصویر سوشل میڈیا

مقبوضہ بیت المقدس:(اے یو ایس ) اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام سے نمٹنے کی حکمت عملی پر امریکی صدر جو بائیڈن سے کوئی بات نہ کرنے کا عندیہ ظاہر کرتے ہوئے ایک بیان جاری کرکے تہران پر پابندیاں سخت کرنے اور”معتبر فوجی دھمکی“ پر زور دیا۔

امریکا میں متعین اسرائیلی سفیر گیلاد اردان طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دوسری طرف عبوری وزیراعظم بنجمن نیتن یاھواگلے ماہ اپنی دوبارہ انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

نیتن یاھو نے ایک بار پھر ایران کے بارے میں سخت لہجے کا استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک نیتن یاھو اور بائیڈن کے درمیان کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہوا۔نئی امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر ایران سنہ 2015 میں طے پائے معاہدے کی شرائط اور پروٹوکول پر عمل درآمد کرتا ہے تو امریکا دوبارہ اس معاہدے کا حصہ بن سکتا ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ طے پائے معاہدے سے علاحدگی اختیار کرنے کے بعد ایران پر سابقہ پابندیاں پھر عائد کرد گئی تھیں۔

امریکا میں متعین اسرائیلی سفیر گیلاد اردان اسرائیلی آرمی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر نئی انتظامیہ اس معاہدے پر واپس آجاتی ہے تو ہم اس عمل میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔اسرائیل 2015 کے معاہدے کا فریق نہیں تھا لیکن امریکی کانگریس میں اسرائیل کے طاقت ور حامی اور اتحادی موجود تھے۔ نیتن یاھو کی ایران کے خلاف یک طرفہ فوجی کارروائی کی دھمکیاں بھی سپر پاور کے زمرے میںآتی ہیں۔

اسرائیلی سفیر گیلاد اردان کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ اگر امریکا اس معاہدے پر واپس آجاتا ہے جس سے وہ پہلے ہی دستبردار ہوچکا ہے تو وہ اپنا سارا اختیار کھو دے گا۔انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حالیہ پابندیاں برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ایران کو ٹھوس فوجی انتباہ کے ذریعے مغرب کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات پر قائل کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنا ضروری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *