پشاور🙁 اے یوایس )’طلاق کے بعد سابق شوہر سے عدالت کے ذریعے بچوں کا خرچہ مانگنا میرا جرم بن گیا، بھائیوں نے مل کر میرے بچے سابق شوہر کے حوالے کر دیے اور مجھے زنجیروں سے باندھ دیا۔‘یہ الفاظ ہیں اس خاتون کے جس کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر اس کے اپنے بھائیوں نے تقریباً دس ماہ سے اپنی سگی بہن کے گلے اور پاو¿ں میں زنجیریں ڈال کر اسے قید کر رکھا تھا تاکہ خاتون عدالت جا کر سابق شوہر سے بچوں کے خرچہ لینے کے مقدمے کی پیروی نہ کر سکے۔خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ ایک مکان میں خاتون کو ایک لمبی زنجیر سے باندھ کر قید رکھا گیا ہے۔صوابی پولیس تھانے کے ایس ایچ او عجب خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اطلاع دینے والے شخص نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی درخواست کی ہے۔انھوں نے بتایا کہ اس خاتون کو مبینہ طور پر اپنے ہی سگے چار بھائیوں نے لگ بھگ 18 فٹ لمبی زنجیر سے باندھ رکھا تھا۔ زنجیر خاتون کے پاو¿ں اور گلے میں باندھی گئی تھی۔ جس کمرے میں خاتون کو قید کیا گیا تھا وہاں پنکھا بھی نہیں تھا اور کمرے کو بھی تالا لگایا گیا تھا تاکہ خاتون کمرے سے باہر نہ نکل سکے۔ پولیس کے مطابق خاتون کی عمر 35 سے 40 سال کے درمیان ہے۔پولیس افسر نے بتایا کہ خاتون نے اپنے چاروں بھائیوں کے نام بتائے ہیں جن میں سے تین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ایس ایچ او عجب خان نے بتایا کہ انھیں جب اطلاع ملی تو وہ لیڈی پولیس اور دیگر نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور ساری قانونی کارروائی مکمل کی۔
پولیس نے موقع پر جا کر ویڈیو بھی بنائی ہے جس میں ایک کمرہ دکھائی دیتا ہے جسے باہر سے تالا لگا ہوا ہے اور پولیس کھڑکی سے خاتون سے بات کرتی ہے اور ان سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔اس دوران پولیس کی جانب سے بھائیوں کے گھر سے چابی لانے کا کہا جاتا ہے لیکن پولیس کے مطابق بھائی موقع سے فرار ہو گئے، جس کے بعد تالا توڑ کر خاتون کو بازیاب کرایا گیا۔پولیس کے مطابق کمرے کے اندر پنکھا نہیں تھا، ایک سلائی مشین، ایک جائے نماز اور ایک چارپائی تھی جبکہ خاتون کے گلے میں ڈالی گئی زنجیر کو دو بڑے بڑے تالے لگے تھے اور زنجیر پیر سے لپٹی ہوئی تھی۔خاتون نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا ہے کہ اب سے تیرہ سال پہلے اس کی شادی ہوئی تھی اور اس دوران اس کے دو بچے پیدا ہوئے۔ ان میں سے ایک بیٹی ہے جس کی عمر دس سال ہے اور بیٹے کی عمر آٹھ سال ہے۔اس دوران شوہر کے ساتھ خانگی رنجش پیدا ہوئی جس کے بعد ایک بھائی نے ایک مکان ’مجھے دیا جہاں میں رہنے لگی۔ اس ناچاقی کے دوران اپریل 2016 میں شوہر نے مجھے طلاق دے دی۔ میں نے بچوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے صوابی کی فیملی کورٹ میں سابق شوہر کے خلاف دعویٰ دائر کر دیا۔‘پولیس نے بتایا کہ خاتون کے مطابق جب وہ عدالت جاتی تو اس کے بھائیوں کو یہ ناگوار گزرتا تھا۔خاتون نے الزام لگایا ہے کہ ’میرے بھائی میرے باہر گھومنے پر ناراض تھے اس لیے کوئی دس ماہ پہلے انھوں نے مجھے ایک بھائی کے خالی گھر میں زنجیروں کے ساتھ باندھ دیا اور مجھے مارنے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے۔‘پولیس نے بتایا کہ خاتون کو جب رہا کرایا گیا تو انھوں نے بتایا کہ عدالت میں جب مقدمہ کر دیا گیا تھا تو بھائیوں نے مبینہ طور پر سابق شوہر کے ساتھ رابطے کیے اور بچے اس کے حوالے کر کے یہ یقین دلایا تھا کہ ان کی بہن اب عدالت نہیں جائے گی۔پولیس کو یہ بھی اطلاع دی گئی ہے کہ اس وقت ان لوگوں نے مبینہ طور پر مل کر یا جرگے کی شکل میں ہی یہ فیصلہ کیا تھا۔صوابی پولیس تھانے کے ایس ایچ او عجب خان نے بتایا کہ ان کے بھائیوں کا دعویٰ تھا کہ ان کی بہن ذہنی مریضہ ہے اور اس کے تحفظ کے لیے انھوں نے اسے گھر میں رکھا تھا جس پر پولیس نے کہا کہ خاتون تو بظاہر ذہنی طور پر بیمار نہیں لگتی۔ پولیس نے جب بھائیوں سے اس حوالے سے میڈیکل ریکارڈ طالب کیا کہ بتائیں کہ کس ڈاکٹر سے اس کا علاج کرایا جا رہا تھا، تو پولیس کے مطابق بھائیوں نے اپنا موقف تبدیل کر دیا۔پولیس نے خاتون کو عدالت میں پیش کیا جہاں عدالت نے ان سے پوچھا کہ اب وہ کہاں جانا چاہتی ہیں جس پر خاتون نے کہا کہ ان کا کوئی نہیں ہے اس لیے انھیں دارالامان بھیج دیا جائے جس پر عدالت نے انھیں دارالامان بھیجنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔