اسلام آباد: مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے دو شنبہ کو رات دیر گئے اعلان کیا کہ حکومت نے اس کے چاروں مطالبات تسلیم کر لیے ہیں اور کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے فیصلہ تین ماہ کے اندر لے لیا جائے گا نیز فرانس کے لیے کسی پاکستانی سفیر کا تقرر نہیں کیا جائے گا۔ ٹی ایل پی کے گرفتار تمام کارکنوں کو دھرنے کے خاتمہ اک اعلان کرتے ہی رہا کر دیا جائے گا نیز ٹی ایل پی لیڈروں اور کارکنوں کے خلاف حکومت کوئی کیس بھی درج نہیں کرے گی۔لیکن تنظیم نے دھرنا ختم کرنے کو باقاعدہ کوئی اعلان ابھی نہیں کیا ہے۔
ٹی ایل پی کے ترجمان نے ایک دستی تحریر ی معاہدے کی نقل پیش کی جس پر وزیر برائے مذہبی امور پیر نورالقادری، وزیر داخلہ اعجاز شاہ اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے دستخط تھے۔لیکن حکومت کی جانب سے اس قسم کے کسی معاہدے کا باقاعدہ کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔لیکن وزارت داخلہ نے گذشتہ دو روز کے دوران پنجاب کے مختلف حصوں سے گرفتار لوگون کی فوری رہائی کے احکام ضرور جاری کر دیے۔ قبل ازیں بتایا گیا تھا کہ ٹی ایل پی کے سینکڑوں کارکنان وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی کے سنگم میں واقع فیض آباد چوک پر دھرنا د یے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان میں تعینات فرانس کے سفیر کو واپس نہیں بھیجا جاتا، وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے۔
تحریکِ لبیک پاکستان نے اتوار کو فرانس میں پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے خلاف راولپنڈی میں لیاقت باغ سے فیض آباد تک ’ناموسِ رسالتِ ریلی نکالی تھی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی۔ یہ ریلی اتوار کو رات گئے فیض آباد پل پر پہنچی جہاں اس کے شرکا نے دھرنا دے دیا۔یہ وہی مقام ہے جہاں یہ جماعت 2017 اور پھر 2018 میں بھی دھرنا دے چکی ہے اور ماضی میں حکومت سے ایک معاہدے کے بعد اس نے دھرنا ختم کیا تھا۔جماعت کے سربراہ خادم رضوی نہ تو ریلی میں شریک ہوئے اور نہ ہی ابھی تک وہ دھرنے کے مقام پر پہنچے ہیں۔ تحریک لبیک کے ترجمان قاری زبیرکا کہنا ہے کہ اگرچہ تحریک لبیک کے امیر خادم حسین رضوی ابھی اس دھرنے میں موجود نہیں ہیں لیکن ان کی ہدایات واضح ہیں کہ جب تک ان کا مطالبہ پورا نہیں ہوتا اس وقت تک وہ اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ ابھی تک کوئی بھی حکومتی نمائندہ ان سے مذاکرات کے لیے نہیں آیا۔اس ریلی اور دھرنے کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ زخمیوں میں ٹی ایل پی کے کارکن اور پولیس اہلکار دونوں شامل ہیں۔مقامی پولیس کا دعویٰ ہے کہ ریلی میں شریک مظاہرین نے نہ صرف مری روڑ پر واقع دکانوں میں توڑ پھوڑ کی بلکہ وہاں پر موجود پولیس اہلکاروں پر پتھراو¿ بھی کیا تھا۔ راولپنڈی پولیس نے 200 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔فیض آباد میں ہونے والے دھرنے کے باعث راستے بند سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے رہائشیوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔دھرنے کی وجہ سے اسلام آباد ہائی وے کو کھنہ پل کے مقام پر بند کر دیا گیا ہے جبکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والے دیگر راستوں پر بھی ناکے لگا دیے گئے ہیں یا انھیں کنٹینر رکھ کر بند کیا گیا ہے۔
دھرنے کے مقام کی جانب جانے والے تمام راستے بھی بند ہیں جبکہ اسلام آباد کی انتظامیہ نے ٹریفک کے لیے متبادل راستوں کی تفصیلات جاری کی ہیں۔اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے اپنی ایک ٹویٹ میں متبادل راستوں کے بارے میں بتایا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ضلعی انتظامیہ ان راستوں کو کلیئر کروانے کی کوشش کر رہی ہے ۔