تہران:(اے یو ایس )ایران کے اعلیٰ سنی مذہبی رہنما مولوی عبد الحمید نے ملک میں مظاہرین کو پھانسی دینے پر تنقید کرتے ہوئے اسے شرعی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا اور حکومتی عہدیداروں کو انتباہ دیا کہ اس طرح کے انتہائی اقدامات سے حکومت مخالف مظاہروں کو نہیں روکا جا سکے گا۔ انہوں نے محسن شیکاری کو، جس نے زاہدان میں موجود نمازیوں سے کہا تھاکہ تحریک کی آگ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارکر نہیں بجھائی جا سکے گی، پھانسی چڑھا دینا غلط اور شرعی قانون کے خلاف فعل تھا ۔ نوجوان احتجاجی محسن شیکاری کو 8 دسمبر کو تہران میں ایک سیکورٹی گارڈ کو چاقو گھونپ کر زخمی کرنے اور ایک سڑک کی ناکہ بندی کرنے کے جرم میں پھانسی دے دی گئی۔
دریں اثنا ایران کے جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان میں ایک سنی عالم کو اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا ۔ یہ بات ایرانی حکام نے جمعہ کے روز بتائی ہے۔ قتل کے اس تازہ ترین واقعے کے بعد ایک نئی بد امنی پیدا ہوگئی ہے۔سیستانی صوبہ ایران کا غریب ترین صوبہ ہے۔ نسلی طور پر یہ بلوچ آبادی کا علاقہ ہے۔ اس علاقے میں عام طور پر تشدد بھرے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کی بائیس سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد جاری ملک گیر احتجاج کے اثرات اس صوبے میں بھی آئے ہیں۔
صوبے کی سکیورٹی کونسل کا کہنا ہے کہ مولوی عبدالوحید ریگی کو جمعرات کے روز نامعلوم افراد نے اغوا کیا تھا، بعد ازاں انہیں شہید کر دیا گیا۔ حکام کے مطابق انہیں کاش شہر سے اغواکیا گیا تھا، حکام کا یہ بھی کہنا کہ اس واقعے کے بارے میں تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔16 ستمبر سے احتجاج اور بد امنی کی بد ترین لہر کے شکار ایران میں سنی عالم کا اس طرح قتل ایک اور بڑا واقعہ ہے۔ ایران کے اعلیٰ ترین سکیورٹی فورم نے 3 دسمبر کو کہا تھا کہ اب تک 200 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔جبکہ ناروے کے دارالحکومت اوسلو سے ایرانی کی صورت حال کو مانیٹر کرنے والے ادارے کے مطابق اب تک ایران میں458 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان میں سے 128 کا تعلق اسی صوبہ سیستان سے تھا۔
