Top U.S., Russian military chiefs talk amid Ukraine tensionsتصویر سوشل میڈیا

کیف:(اے یو ایس ) امریکہ اور روس کے اعلیٰ فوجی عہدے داروں نے منگل کے روز ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ یہ ایک ایسے موقع پر ہوا جب روس اور یوکرین کی سرحد پر کشیدگی بظاہر نئی بلندیوں پر پہنچ گئی ہے۔امریکہ کے چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی اور روس کے جنرل سٹاف جنرل ویلری گراسیموف کی بات چیت کے بعد واشنگٹن اور ماسکو دونوں کی جانب سے بیانات جاری کیے گئے۔امریکہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں جنرلوں نے سیکیورٹی سے متعلق کئی اہم مسائل پر بات کی۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دونوں فوجی رہنماو¿ں کے درمیان اس بات چیت کے تسلسل کا مقصد کشیدگی سے فوجی ٹکراؤ کے خطرے میں کمی کو یقینی بنانا تھا۔

دونوں اعلیٰ فوجی عہدے داروں کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت ان خدشات کو اجاگر کرتی ہے جس کے متعلق امریکہ اور ناٹوکئی بار، یوکرین اور کرائمیا کی روس کی سرحد کے ساتھ روسی فوجوں کی غیر معمول سرگرمی کا نام دے چکے ہیں۔یوکرین کی انٹیلی جنس کا اندازہ ہے کہ اس کی سرحد کے ساتھ روس نے اپنے تقریباً 90 ہزار فوجی تعینات کر دیے ہیں۔امریکی عہدے دار یوکرین کی انٹیلی جنس کے تجزیوں پر کھلے عام تبصرے سے انکار کر چکے ہیں، لیکن ایک اعلیٰ انتظامی عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ یوکرین کے خلاف روس کی فوجی سرگرمیوں اور سخت بیانات نے سنجیدہ نوعیت کے خدشات پیدا کیے ہیں۔

عہدے دار کا کہنا تھا کہ ہم نے انہیں بتایا ہے کہ امریکہ روس کی نقصان پہنچانے والی کارروائیوں کی درستگی کے لیے متعدد اقدامات کرنے پر تیار ہے اور یہ کہ ہم مستقبل میں بھی ان اقدامات کے استعمال سے احتراز نہیں کریں گے۔پیر کے روز روس کی خارجہ انٹیلی جنس سروس ایس وی آر نے اپنی ویب سائٹ پر امریکہ پر نکتہ چینی کی تھی اور یوکرین کی صورت حال کا موازنہ اس تناو¿ سے کیا تھا جو 2008 میں روس کی جانب سے جارجیا پر حملے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ ویب سائٹ کا کہنا تھا کہ جارجیا کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی تھی۔دوسرے روسی عہدے داروں نے ناٹو اتحادیوں کے ساتھ امریکہ کی حالیہ فوجی مشقوں پر شکایت کی ہے۔منگل کے روز امریکہ اور روس کے اعلیٰ فوجی عہدے داروں کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب یوکرین کے جنرلز نے گزشتہ چار دنوں کے دوران دو بار مشرقی یورپ میں سیکیورٹی کی صورت حال کے متعلق بات کی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *