نئی دہلی:(اے یوایس) محتاجوں، غریبوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد، معاونت، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے،ان کے ساتھ تعاون کرنے، ان کے لیے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاءفراہم کرنے کو دین اسلام نے کار ثواب اور اپنے ربّ کو راضی کرنے کانسخہ بتایاہے۔
خالق کائنات اللہ ربّ العزت نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مقدور بھر مددکرے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے،اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔
سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔(سورة البقرةآیت 177)، قرآن حکیم کی سورة البقرہ ہی میں ارشاد ہے”(لوگ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔“ (سورة البقرہ آیت 215) سماجی بہبود کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں، بے کسوں، معذوروں، بیماروں، بیواﺅں، یتیموں اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح وبہبود ہے۔یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب ایسے لوگوں کی ضرورت اور معذوروی کا خاتمہ کرکے معاشرے میں دولت وضرورت کے درمیان توازن پیدا کیا جائے۔
جو لوگ معاشرے سے غربت وافلاس اور ضرورت واحتیاج دور کرنے کے لئے اپنا مال ودولت خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرض حسنہ قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کیے گئے مال کو کئی گنا بڑھاکردیاجائے گا۔ دوسروں کی مدد کرنا ان کی ضروریات کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔دین اسلام سراسرخیر خواہی کا مذہب ہے۔میانمار سے اپنے دین وایمان بچانے کی خاطر ہجرت کرکے ہندوستان کی راجدھانی دہلی کے مختلف علاقوں میں برمائی مہاجرین قیام پذیر ہیں لاک ڈاﺅن او رکورونا کی وجہ سے پہلے مشکلات کا شکار تھے مزید بارش نے اضافہ کردیا شرم وہار، شاہین باغ، کالندی کنج، کھجوری، قاسم وہار، بدیلہ، وکاس پوری، فرید آباد، میوات میں مہاجرین کے خاندان دہائیوں سے امن وامان کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں بے روز گاری او رلاک ڈاﺅن کی وجہ بہت پریشان ہیں جمعیة علماءہند اور دہلی کے مخیر حضرات وائمہ کرام ان حضرات کی وقتاً فوقتاً مدد کرتے رہتے ہیں فی الحال ان لوگوں کو ترپال بانسی بلی سردی سے بچنے کے لئے گرم کپڑے، راشن، بچوں کے لئے دودھ، بسکٹ، طبی خدمات کی سخت ضرورت ہے۔
دعوت و تبلیغ کے ذمہ داران بھی ان حضرات کے دین وایمان کی فکر کریں اور خود جاکر جائزہ لیں۔ مولانا غیور احمد قاسمی نے مختلف علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد کہا یہ لوگ دنیا کے مظلوم ترین لوگ ہیں جن پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے گئے مگر یہ لوگ اپنے ایمان پر قائم رہے ان لوگوں کی خبر گیری کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔