اس ماہ کے اوائل میں رخصت پذیر صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا غیر مصدقہ اطلاع موصول ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ چین نے افغانستان میں امریکی فوجی دستوں پر حملوں کے لیے طالبان و دیگر غیر ریاستی عناصر کو پیسہ دینے کی کوشش کی تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے اس کی اطلاع دیتے ہوئے مزید بتایا کہ یہ خفیہ اطلاع 17دسمبر کو یومیہ حالات سے مطلع کرنے کے پروگرام کے دوران صدر ٹرمپ کے گوش گذار کر دی گئی تھی۔
ان کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائین نے اس اطلاع کے حوالے سے صدر سے اسی روز بات کی۔ بریفنگ اور اطلاع کو شائع کرنے کے انتظامیہ کے ارادے کی سب سے پہلے خبر اینکوئس نے جاری کی۔اس مبینہ خفیہ معلومات کی اطلاع ابھی تک کسی کو نہیں ہے۔ یہ خبر اس سال کے اوائل میں پیش آئے اس واقعہ کی یاد دلاتی ہے جس میں روس نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کے لیے افغان انتہاپسندوںکو نقد رقم اداکی تھی۔یہ اطلاع بھی صدر کی انٹیلی جنس بریفنگ میں دے دی گئی تھی لیکن بعد میں اس کا انکشاف ہوا کہ اس اطلاع پر ہفتوں کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی۔جمعرات کے روز ایک بریفنگ میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بین نے اس الزام کو بکواس اور مہمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بے بنیاد اور مکمل طور سے فرضی خبر ہے۔
وانگ نے یومیہ پریس بریفنگ میں کہا کہ چین نے ہمیشہ امن کی ایک آزاد خارجہ پالیسی اپنائی ہے اور دوسروں پر کبھی جنگ نہیں تھوپی ، حملوں کے لیے دیگر ممالک ہی غیر ملکی عناصر کو دینے دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین افغانستان میں امن و مفاہمت کے عمل کی حمایت کرتا ہے اور افغانستان کے داخلی معاملات میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ کیا صدر منتخب بائیڈن نے خفیہ معلومات دیکھی ہیں یا نہیں ۔ان تک یہ اطلاع پہنچ جانا چاہئے تھیں کیونکہ انہیں روزانہ وہ بریفنگ جو ہر صدر کو دی جاتی ہے دی جا رہی ہے۔
بائیڈن کے ایک افسر نے سی این این کو بتایا کہ گو کہ وہ مبینہ انٹیلی جنس رپورٹنگ کے بارے میں کچھ نہیں بولیں گے اور نہ ہی غیر مصدقہ معلومات کے جاری کرنے کے پس پشت کارفرما محرک کی بات کریں گے لیکن صدر منتخب کو ہمارے سروس اراکین کے تحفظ سے زیادہ اور کسی بات کی تشویش نہیں ہوگی۔ اور ہر اس شخص کا احتساب کریں گے جو امریکیوں کے لیے خطرہ ہیں۔ آنے والے صدر بائیڈن اور رخصت پذیر ٹرمپ کے دفاعی عہدیداران کے درمیان منتقلی عمل کا حوالہ دیتے ہوئے اس افسر نے کہا کہ ہماری ٹیمیں رخصت پذیر انتظامیہ کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات سے جہاں تک ممکن ہو سکے گا سبق لے گی۔وائٹ ہاو¿س نے فوری طور پر اس پر تبصرے کی درخواست کا کوئی جواب نہیںدیا۔ سی این این نے جون میںخبر دی تھی کہ ایک یورپی انٹیلی جنس عہدیدار کے مطابق فوجی انٹیلی جنس ایجنسی جی آر یو کے روسی جاسوسوں نے طالبان انتہاپسندوں کو لالچ دیا تھا کہ اگر وہ افغانستان میں امریکی اور برطانوی فوجیوں کو ہلاک کریں گے تو انہیں نقد انعام سے نوازا جائے گا۔اس افسر نے بتایا کہ روسیوں کی جانب سے انعام کی پیش کش کے باعث اتحادی فوجیوں کو ہلاک یا شدید زخمی کیا گیا ۔لیکن ان کی تعداد اور قومیت کے بارے یں کچھ نہیں بتایا گیا۔
اس معاملہ کی معلومات رکھنے والے ایک امریکی افسر نے سی ای این سے اس بات کی تصدیق کی کہ موصول خفیہ اطلاعات سے نشاندہی ہوتی ہے کہ طالبان انتہاپسندوں کو روس کی جانب سے رقم کی منتقلی ہوئی ہے۔لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان خفیہ اطلاعات کی کیسے تصدیق ہوئی یا اس روسی یونٹ کے نائندوں نے کس سے رجوع کیاتھا۔ جون میں یہ خبر منظر عام پر آئی تو ٹرمپ نے اس معلومات کے بارے میں انہیں کچھ بھی بتائے جانے کی تردید کی۔ بلکہ انہوں نے کہا کہ یہ خفیہ معلومات جعلی ہو سکتی ہیں۔ جو اس سے قبل وائٹ ہاو¿س سے جاری اس باین کے منافی ہے جس میں پریس سکریٹری کیلیگ میکینینی نے اس معلومات کے درست ہونے سے انکار نہیں کیا تھا۔بلکہ اس کے بجائے یہ کہا کہ اس مبینہ روسی انعامی پیش کش کی معلومات ٹرمپ اور نائب صدر مائیک پیمس کے گوش گذار نہیں کی گئی تھیں۔
امریکی فوجیوں پر حملوں کےلیے چین کی جانب سے انعام کی پیش کش کی خبریں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیںجب چین اس امر کا منتظر ہے کہ آیا صدر منتخب جو بائیڈن چین کے تئیں ٹرمپ کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہیں گے یا امریکہ اور چین کے درمیان رشتے بہتر بنانے کی جانب قدم بڑھائیں گے۔اوبامہ بائیڈن انتظامیہ کے دوران سفارتکاری کا رخ چین سے ٹکراو¿ سے زیادہ اس سے تعاون کی جانب تھا۔ لیکن اب اس بات کے وافر ثبوت ہیں کہ حالیہ برسوں میں بائیڈن کے خیالات میں تبدیلی واقع ہوئی ہے اور اس وقت امریکہ کی ،جہاں چین کو امریکہ کا حلیف سمجھنے کے بجائے حریف سمجھا جانے لگا ہے، جیسی سوچ ہے اسی طرح کے نظریات بائیڈن کے بھی ہو گئے ہیں۔جون میں بائیڈن کی انتخابی مہم میں ٹرمپ پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ چین کے ہاتھوں میںکھیل رہے ہیں۔ اور صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے لیے فروری میں ڈیموکریٹک پارٹی کے جلسوںمیں بائیڈن نے چینی صدر شی جن پینگ کو ایک ”ٹھگ“ سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ چین کو راہ راست پر آنا پڑے گا اور قواعد و ضوابط کے مطابق چلنا پڑے گا۔