استنبول: مقامی میڈیا کے مطابق ترکی کی ایک عدالت نے جمعہ کو ایک شامی خاتون سمیت 17 مشتبہ افراد کو مرکزی استنبول میں ہونے والے بم دھماکے کے الزام میں جیل بھیجنے کا حکم دیا ۔ حکومت نے گزشتہ اتوار کے حملے کے لیے ترکی اور اس کے مغربی اتحادیوں کی طرف سے دہشت گرد گروپ قرار دیے جانے والی کالعدم جماعت کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے)کو اس دھماکے کا مورد الزام ٹہرایا تھا۔ کردستان ورکرز پارٹی اور اس کی شامی شاخ وائی پی جی نے اس دھماکے میں اپنا ہاتھ ہونے سے انکار کیا ہے۔ کسی فرد یا گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
ترک پولیس نے الہام البشیر نام کی ایک شامی خاتون جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ استنبول کے ایک مضافاتی علاقے میں کرد عسکریت پسندوں کے لیے کام کرتی تھی، دھماکہ کرنے کے الزام میںگرفتار کر لیا ہے۔ کیونکہ جس مقام پر یہ دھماہ ہوا یہ عورت اسی جگہ سے اٹھ کر گئی تھی اور اسکے جانے کے بعد ہی وہاں رکھے بیگ میں رکھا بم پھٹا تھا۔ البشیر نے مبینہ طور پر اپنی تفتیش کے دوران بم نصب کرنے کا اعتراف کیا ہے۔البشیر نے بتایا کہ اس نے اپنے بوائے فرینڈ کی ایما پر پی کے کے میں شمولیت اختیار کی تھی۔
ایجنسی نے کہا کہ اس سے تعلقات منقطع ہوجانے کے بعد بھی اس عورت نے گروپ سے اپنے تعلقات قائم رکھے۔ وہ مبینہ طور پر سرحد کے قریب عفرین سے، جس پر انقرہ کے حمایت یافتہ گروپوں کا کنٹرول ہے، غیر قانونی طور پر ترکی میں داخل ہوئی تھی۔ استنبول کی عدالت نے 17 مشتبہ افراد کو ریاست کے اتحاد کو تباہ کرنے ، جان بوجھ کر قتل اور دانستہ اقدام قتل کرنے کی کوشش کے الزامات کے تحت مقدمے سے پہلے حراست میں لے لیا تھا۔یہ حملہ پانچ سالوں میں سب سے مہلک تھا اور اس نے 2015 سے 2017 تک ملک بھر میں ہونے والے ان بم دھماکوں کی تلخ یادیں تازہ کردیں جن کا الزام زیادہ تر ریاستی جہادیوں، کرد عسکریت پسندوں اور اسلامی گروپوں پر لگایا گیا ۔
