استنبول:(اے یو ایس )ترکی میں کردوں کی حامی سیاسی جماعت ‘پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی’ سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمٹ عمر فاروق اولو نے ملک کی جیلوں میں ماو¿ں کے ساتھ ان کے بچوں کو حراست میں رکھے جانے کی مذمت کی ہے۔
ترکی کی جیلوں میں ایسے 800 سے زیادہ بچے سلاخوں کے پیچھے موجود ہیں۔ ان میں شیر خوار سے لے کر 6 برس تک کے بچے شامل ہیں۔چند روز قبل ترکی کی ایک جیل کے داخلی راستے کے سامنے ایک زیر حراست ماں اور اس کے دو بچوں کی تصویر سامنے آئی تھی۔ یہ تصویر مذکورہ نوعیت کے بچوں کا معاملہ ایک بار پھر منظر عام پر لے آئی۔
حکام کی جانب سے اس مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا ہے۔عمر اولو ترکی میں انسانی حقوق کے دفاع کے لیے بھی ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ تصویر میں نظر آنے والی ترک خاتون کا نام ایلیادا تیکوز ہے۔
اس کی عمر 32 برس ہے اور وہ ریاضی کی ٹیچر ہے۔ ایلیادا کو استنبول میں خواتین کی خصوصی جیل بکرکوی میں ڈال دیا گیا۔ ایلیادا کے ساتھ اس کے دو بچے ڈیڑھ سالہ بیٹا محمد اکرم اور چار سالہ بیٹی زلال بھی پابند سلاسل ہیں۔ترک حکام نے ایلیادا کو گذشتہ ہفتے گرفتار کیا تھا۔ اس پر جلا وطن ترک مبلغ فتح اللہ گولن کی جماعت میں شمولیت کا الزام ہے۔
ترک حکومت گولن کو 15 جولائی 2016 کو صدر رجب طیب ایردوآن کے خلاف ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کا منصوبہ ساز ٹھہراتی ہے۔ تقریبا ایک برس قبل ایلیادا کے شوہر حسن تیکوز کو بھی اسی نوعیت کے الزام کے تحت گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کی پیچھے پہنچا دیا گیا تھا۔
حسن پیشے کے لحاظ سے میکینکل انجینئر ہے۔ اسے جنوری 2020 میں 6 سال اور 10 ماہ قیل کی سزا سنائی گئی تھی۔عمر اولو کے مطابق محمد اکرم اور زلال اس وقت اپنی ماں کے ساتھ دو ہفتوں کے لیے قرنطینہ میں ہیں۔ ان کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ بعد ازاں دونوں بچوں کو ماں کے ساتھ قید خانے منتقل کر دیا جائے گا۔
عمر اولو پارلیمنٹ میں ان بچوں کا معاملہ زیر بحث لانے کے لیے کوشاں ہیں جن کو ان کی ماو¿ں کے ساتھ جیل میں ڈالا ہوا ہے۔ ترکی میں ایسے بچوں کی تعداد 800 سے زیادہ ہے۔اگرچہ ترکی کا قانون ان ماو¿ں کی سزاؤں کو مؤخر کرنے کا فیصلہ دیتا ہے جن کا ڈیڑھ برس سے کم عمر کا بچہ ہو۔ تاہم عملی طور پر ایسی ماؤں کو ان کے بچوں سمیت حراست میں رکھا گیا ہے۔