متحدہ عرب امارات (متحدہ عرب امارات) اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے ہونے والے حالیہ معاہدے سے ایک واضح پیغام ملتا ہے کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کو قبول کیے جانے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور عرب دنیا اب خطے میں امن کو یقینی بنانے کی جدوجہد میں لگی ہے۔ تاہم اس پیشرفت کی تمام امت مسلمہ نے پذیرائی نہیں کی کیونکہ ترکی کے حلق سے بات نہیں اتر رہی اور ترکی نے اس اقدام پر متحدہ عرب امارات کو بڑے جارح انداز میں پھٹکارہ ۔دونوں ممالک کی جانب سے کیے گئے سفارتی تعلقات کے اعلان کے ایک دن بعد ہی ترک صدر رجب طیب اردوغان نے اسے امریکہ کے اشارے پر کیا گیا معاہدہ قرار دیا اور دھمکی دی کہ ترکی متحدہ عرب امارات سے اپنے سفیر کو واپس بلا رہا ہے اور ابوظہبی کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات معطل کر رہا ہے۔
علاوہ ازیں ترکی کی وزارت خارجہ نے متحدہ عرب امارات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایک بیان جاری کیا اور اس اقدام کو ”منافقانہ رویہ“قرار دیا اور کہا کہ یو اے ای نے ریاکاری سے کام لیا ہے۔ دوسرے ہی روز اردوغان کی پارٹی نے بھی یو اے ای پر تسلسل سے کیے جانے والے حملے شروع کر دیے اور اس معاہدے کو فلسطینی کاز کے خلاف”سیاسی خودکشی“ سے تعبیر کیا۔تاہم ترکی کی طرف سے کی جانے والی تنقید عالم اسلام کوتقسیم اور سعودی عرب کو اس کے قائد کے طور پر ہٹاکر مسلم ممالک پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی اردوغان کی ایک اور کوشش ہے۔ ترکی کے الزامات پر متحدہ عرب امارات کے ردعمل نے اردوغان کی امنگوں اور ترکی کے دوہرے معیار کو اجاگر کیا ہے۔
ترکی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور غرغاش نے ترکی کو تاریخ کی یاد دلاتے ہوئے اس کے ”دوہرے معیار“ کو جگ ظاہر کیا۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ ترکی کے بڑھتے تجارتی رابطوں اور ترکی میں اس کی اہم اقتصادی موجودگی کو اجاگر کیا۔دونوں ممالک کے درمیان دو بلین امریکی ڈالر کی دوطرفہ تجارت ہے۔ انہوں نے ترکی کو یہ بھی یاد دلایا کہ ہر سال نصف ملین سے زیادہ اسرائیلی شہری ترکی جاتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ترکی نے تل ابیب میں اپنا سفارت خانہ قائم کیا ہے اور یہ اسرائیل سے سب سے پہلے سفارتی تعلقات قائم کرنے والے ممالک میں سے ایک تھا۔اسا نے1949میں ہی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔
در حقیقت ترکی جنگی نوعیت سے نہایت اہم علاقہ میں اپنی پوزیشن مستحکم کر کے خلیجی ممالک کا مقابلہ کرنے کے لئے اسرائیل میں اپنے نقش قدم بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ ترکی اسرائیل کے علاوہ دیگر اسلامی ملکوں میں اپنی حیثیت مستحکم کرنے اور انہیں ترک آبادیات میں بدلنے کے مشن پر ہے۔ قطر نمایاں اہداف میں سے ایک بن گیا ہے اور وہ ترکی کے لیے ایک محفوظ مقام بن گیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ الجزیرہ نیوز چینل جس کا مرکز ہی قطر ہے جموں و کشمیر پر ترکی کی مرضی کے عین مطابق خبریں دے رہا ہے۔ ترکی دولت اسلامیہ فی العراق و الشام (داعش) کے دہشت گردوں اور اسلامی انتہاپسندوں کے ذریعہ شام اور لیبیا میں تشدد اور عدم استحکام پیدا کرتارہا ہے۔ اس نے مغربی افواج کے حملوں کے بعد شام اور عراق سے فرار ہونے والے داعش کے ہزاروں دہشت گردوں کو پناہ دی ہے ۔ اردگان اپنے جغرافیائی سیاسی اور مذہبی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے داعش کو ایک ہر فن مولا آلے کے طور پر مؤثر طریقے سے استعمال کررہا ہے۔
ترکی کی نظریں اب آذر بائیجان پر ہیں اور اس پر اپنا غلبہ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے وہ اسے اپنا اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور ترک فوج کو تعینات کر رہا ہے۔ اسلامی دنیا کی قیادت حاصل کرنے کے مقصد سے اردوغان ایک طرف دہشت گردی اور اسلحہ بارود کا استعمال کر رہا ہے اور دوسری جانب اسلامی انتہاپسندی کو فروغ دے رہا ہے۔اردوغان نے مذہبی امور کے ڈائریکٹوریٹ دیانیة کی نوتنظیم کر کے اس میں اپنے وفادار وں کو بٹھا دیا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ اردوغان نے داعش کے دہشت گردوں کی بھرتی کر کے انہیں دنیا بھر میں مبلغ اسلام کے طور پر بھیجنا شروع کر دیا ہے۔سعودی عرب بلا مقابلہ عالم اسلام کا قائد ہے اور اس نے اسلامی ممالک کی بے پناہ مالی مدد کر کے اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ان کے مفادات کے لیے لڑ نے جیسے مستحسن اقدامات کر کے اپنی قیادت ثابت بھی کر دی ہے۔سعودی قیادت والے گروپ کے دیگر اراکین بھی مشرق وسطیٰ میں امن اور عالم عرب میں ہم آہنگی و یکجہتی یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔متحدہ عرب امارات اور اسرائیل میں معاہدہ اس حقیقت کی بڑی مثالوں میں سے ایک ہے۔یو اے ای نے ایک جانب امن یقینی بنانے کے لیے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے اور دوسری جانب اسے فلسطینی مغربی کنارے کے علاقوں کے الحاق کے اس کے منصوبہ پر عمل کرنے پر روکنے پر مجبور کر دیا۔ایک بڑے بھائی کے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے سعودی عرب نے تمام اسلامی ممالک کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر لانے اور مشترکہ مقاصد کی تکمیل کے لیے توانائی مجتمع کرنے کے لیے تنظیم اسلامی ممالک تشکیل دینے میں مرکزی کردار ادا کیا۔تاہم ترکی مسلم دنیا میں پھوٹ ڈال کر اس کی قیادت کو چیلنج کر رہا ہے اور ایک نیا منحرف گروپ قائم کر کے اس کی، جس میں پاکستان ، ملیشیا اور چند دیگر ممالک ہیں ، قیادت کر رہا ہے۔
یہاں تک کہ او آئی سی کے مقبالہ میںایک نئی اسلامی تنظیم کھڑی کرنے کے اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے اردوغان شب و روز محنت کرنے لگے۔پاکستان اور ملیشیا ان کی ان کوششوں میں پہلےہی ان کی مدد کر رہے ہیں۔ابھی حال ہی میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے وزراءخارجہ کا اجلاس نہ بلانےپر سعودی عرب پر تنقید کرتے ہوئے جس طرح کچھ دیگر اسلامی ملکوں کا ایک علیحدہ اجلاس بلانے کی دھمکی دی وہ بلا شبہ سعودی عرب کو حاشیہ پر ڈالنے کے لیے پاکستان کا ترکی کی ایماءپر کیا گیا اقدام تھا ۔اپنی نوعیت کی یہ پہلی کھلی دھمکی تھی جو اس امر کو اجاگر کرتی ہے کہ ترکی کا دو چار ممالک پر غلبہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ انہوں نے سعودی عرب کو کھلم کھلا برا بھلا کہنا اور سبوتاژ کرنا شروع کر دیا ہے۔ سعودی عرب کے برعکس ترکی ہینگ لگے نہ پھٹکری کے مصداق ایک دھیلہ خرچ کیے بغیر ایسا اثر و رسوخ پیدا کرنے کے قابل ہو گیا۔اس نے سعودی عرب کی بالا دستی کو چیلنج کرنے اور اردوغان قیادت والی خلافت اسلامیہ کے قیام کے لیے ان ملکوں میں دہشت گردی ، تشدد اور مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دینا شروع کر دیا۔اردوغان کے اولوالعزم منصوبوں کی وجہ سے مچی افرا تفری کے درمیان اسلامی ممالک کا اتحاد بری طرح متاثرہوا ہے اور عالمی امن پر کاری ضرب لگی ہے۔درحقیقت دیکھا جائے تو کٹر اسلامی نظریات کی آڑ میں وہ اسلام کو زبردست نقصان پہنچا رہے ہیں۔ان کا منافقانہ رویہ اور ریا کاری عالم اسالم کے لیے انہیں مزید مہلک بنا رہے ہیں۔
اردوغان کے منصوبہ میں چین کی ایک طاقتور اتحادی کے طور پر خصوصی پووزیشن ہے۔ اور اس تلخ حقیقت کے باوجود کہ چین کے شین سیانگ کیمپوں میں ترک نسل کے مسلمان ایغور مسلمانوں کے ساتھ قید و بند کی کسمپرسی کے عالم میں زندگی گذار رہے ہیں ،اردوغان نے اپنی چپی نہیں توڑی اور ابھی تک مہر بلب ہیں اور مسلمانوں کی نسلکشی کی چینی کوششوں کی خاموشی کے ساتھ حمایت کر رہے ہیں۔مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب سے سخت مقابلہ کا اندازہ لگا کر اردوغان نے اب جنوب ایشیائی ممالک کی جانب جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے، دیکھنا شروع کر دیاہے۔ اردوغان نے خلافت اسلامیہ کے اپنے نقشہ میں ہندوستان سمیت جنوبی ایشیائی ممالک کو دکھایا ہے اور اور دہشت گردی اور انتہاپسندی کو فروغ دے کر ان ملکوں پر اپنا غلبہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا رکھا ہے۔اردوغان کے دیانة نے انتہاپسند اسلامی نظریات کو فروغ دے کر ہندوستانی مسلمانوں ورغانا شروع کر دیا ہے ۔یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ اردوغان ہندوتان کے خلاف دہشت گردوں کے توسط سے پاکستان کی درپردہ جنگ میں اس کی حمایت کر رہا ہے۔اگر ہندوستان نے اپنی سرزمین پر ترکی کی سرپرستی میں انجام دی جانے والی تخریبی سرگرمیوں پر شکنجہ نہ کسا اور خطہ میں ترکی کے بڑھتے اثر و عرسوخ پر انکش لگانے کے لیے علاقائی طاقتوں کو متحد نہ کیا تو جب کچھ کرنے کا وقت آئے گا تو اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالی طاقتیں ترکی کو تنہا ڈال کر اردوغان کے توسیع پسند اور انتہاپسندی والے اسلامی ایجنڈے پر نظر رکھنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ سعودی عرب اسلامی دنیا کا قائد برقرار رہے گا ،متحد ہو جائیں۔