انقرہ :ترک صدر رجب طیب اردوغان نے چین کئے صدر شی جن پنگ سے ٹیلی فونی گفتگو میں اویغور مسلمانوں کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ۔ گفتگو کے دوران ، اردوغان نے جن پنگ کی ناراضگی سے بچنے کے لئے یہ بھی کہا کہ ترکی چین کی قومی خودمختاری کا احترام کرتا ہے لیکن اویغور مسلمان چین کے مساوی شہری کی حیثیت سے امن سے ر ہیں۔ ترک صدر اردوغان نے جن پنگ کے ساتھ فون پر ہی دوطرفہ اور علاقائی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
اردوغان نے کہا کہ ترکی کے لئے یہ ضروری ہے کہ اویغور ترک چین کے مساوی شہری کی حیثیت سے خوشحالی اور امن سے رہیں۔ انہوں نے چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے بارے میں ترکی کا قابل احترام نظریہ بھی ظاہر کیا۔اردوغان نے شی جن پنگ کو بتایا کہ ترکی اور چین کے مابین تجارتی اور سفارتی تعلقات کا اعلیٰ امکان ہے۔ دونوں رہنماو¿ں نے توانائی ، تجارت ، نقل و حمل اور صحت سمیت مختلف شعبوں پر تبادلہ خیال کیا۔ بتادیں کہ ایشیا میں ہندوستان مخالف دھڑا بنانے کے لئے ترکی پاکستان اور چین کو سادھ رہاہے۔ یہ تینوں ممالک دفاع ، تجارت اور سفارتکاری کے شعبوں میں قریبی تعلقات استوار کر رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ترکی نے امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد کابل ائیرپورٹ کی ذمہ داری سنبھالنے کا فیصلہ کیا ہے۔گزشتہ سال دونوں ممالک کے مابین حوالگی کے معاہدے پر اتفاق رائے کے بعد ، ترکی میں مقیم 40000 اویغوروں نے احتجاج کیا۔ ترک بولنے والے ان مسلمانوں نے انقرہ کی خارجہ پالیسی پر سوالات اٹھائے۔ جس کے بعد ترک وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ یہ معاہدہ ایسا ہی ہے جیسا ترکی نے دوسرے ممالک کے ساتھ کیا ہے۔ انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ ایغوروں کو چین واپس بھیج دیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے ماہرین اور انسانی حقوق کے گروپوں کا اندازہ ہے کہ حالیہ برسوں میں چین کے مغربی سنکیانگ خطے میں نظربند کیمپوں میں قریب 10 لاکھ اویغور مسلمانوں کو قید میں رکھا ہوا ہے۔ اس میں بنیادی طور پر ترک بولنے والے اویغور اور دیگر اقلیتی مسلمان شامل ہیں۔ چین نے ابتدائی طور پر ان حراستی کیمپوں کے وجود کی تردید کی تھی ، لیکن بعد میں کہا کہ یہ پیشہ وارانہ مراکز ہیں اور ان کو شدت پسندی سے نمٹنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ چین اویغور مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کے تمام الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔