استنبول:( اے یوایس ) ترکی میں بے روزگار افراد اور بھوک کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد کے حوالے سے خوف ناک اعداد وشمار سامنے آئے ہیں۔ اس صورت حال کا اصل سبب کئی برس سے ترک کرنسی کی قدر میں شدید کمی اور ملک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤکے عوامل کار فرما ہیں جن کے سبب ہزاروں افراد ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ترکی میں کنفیڈریشن آف ٹریڈ پروگریسیو یونین کے مطابق ملک میں 1.6 کروڑ شہریوں کو غربت اور 1.7 کروڑ دیگر افراد کو بے روزگاری اور کام کے مواقع میسر نہ ہونے کا سامنا ہے۔
اسی طرح ترکی میں 1.8 کروڑ افراد غربت کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ گئے ہیں۔تین روز قبل ترکی میں ایک سرکاری ادارے کی جانب سے جاری معلومات میں بتایا گیا کہ 2015 سے اب تک ملک میں غربت کے سبب 1370 افراد خود کشی کر چکے ہیں۔ادارے کے مطابق رواں سال کے ابتدائی آٹھ ماہ کے دوران ترکی میں 54 افراد نے اپنی زندگیاں ختم کر ڈالیں۔ اس سے قبل 2018 اور 2019 کے درمیان ملک میں غربت اور بے روزگاری کے سبب 566 افراد نے خود کشی کی۔ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی حکومت سرکاری طور پر ملک میں 40 لاکھ بے روز گاروں کی موجودگی کا اعتراف کرتی ہے۔
تاہم کنفیڈریشن آف پروگریسو ٹریڈ یونینز اور معیشت کے ماہرین سرکاری ادارہ برائے شماریات کی جانب سے اعلان کردہ اس تعداد کے درست ہونے میں شکوک کا اظہار کرتے ہیں۔اس حوالے سے ترک کے ایک پروفیسر اور اقتصادی ماہر میرت بویوک کاراباجک کا کہنا ہے کہ”ملک میں کوئی بھی شخص حکومت کی جانب سے اعلان کردہ اعداد و شمار کا یقین نہیں کرتا“۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ”ترکی میں بے روزگاری کی شرح سرکاری طور پر 13% تک پہنچ رہی ہے۔ تاہم یہ تعداد ان تمام افراد کی ہے جنہوں نے گذشتہ ماہ کام کرنے کے مواقع تلاش کیے۔ اگر ان میں ان افراد کا اضافہ کر دیا جائے جو کئی ماہ سے کام نہیں کر رہے ہیں تو پھر یہ شرح کم از کم 26% بنتی ہے اور اگر ہم ملازمت سے ہاتھ دھونے والے افراد کو بھی ملا لیں جو بے روزگاری فنڈ سے امداد حاصل کر رہے ہیں تو پھر ملک میں بے روزگاری کی حقیقی شرح تقریبا 50% بنتی ہے ۔
ترک پروفیسر کے مطابق بے روزگار افراد میں تقریبا 30% نوجوان ہیں جن میں اکثریت یونیورسٹی ڈگری کی حامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک امریکی ڈالر کی قیمت 8 ترک لیرہ سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ چیز ملک میں اقتصادی صورت حال مزید ابتر کر دے گی۔ بالخصوص جب کہ مقامی کمپنیوں کی بڑی تعداد غیر ملکی کرنسی میں قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔
پروفیسر میرت نے بتایا کہ حکومتی سپورٹ مرکزی طور پر ان چند کنسٹرکشن کمپنیوں کو حاصل ہے جن کے صدارتی محل کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ اسی واسطے ترکی کی معیشت میں مزید بگاڑ آئے گا اور اس بحران کے حوالے سے مختصر مدت یا درمیانی مدت کے حلوں کا تلاش کیا جانا کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔اگست 2018میں کرنسی کے بحران کے سبب اس سال ترک لیرہ کی قدر میں جموعی طور پر 28% کی کمی واقع ہوئی تھی۔ اگلے سال 2019 میں ترک کرنسی مزید 12% گراوٹ کا شکار ہوئی۔رواں سال 2020 کے جنوری سے اب تک ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے مقابل ترک لیرہ اپنی 20% قیمت کھو چکا ہے۔