نئی دہلی: ہندوستان نے پاکستان کے گہرے دوست ترکی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر بول کر وہ ہندوستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔
ترکی نے کہا تھا کہ ایک سال قبل آرٹیکل 370کی تنسیخ خطہ میں امن و سلامتی کے حق میں سود مند نہیں ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے ترکی کے خیالات کو حقیقی طور پر غلط اور بدگمانی اور طرفداری سے تعبیر کیا۔
واضح ہو کہ بدھ کے روز سابق جموں و کشمیر ریاست کو خصوصی درجہ دینے والی آئینی دفعہ370تنسیخ کرنے کی پہلی سالگرہ تھی۔ ہندوستان نے 5اگست2019کو اس دفعہ کی تنسیخ کے ساتھ ساتھ ریاست کو دو مرکزی علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں منقسم کر دیا تھا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندوستان نے رواں سال فروری میں بھی ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کو اس وقت پھٹکار لگائی تھی جب انہوں نے اپنے دورے پاکستان کے دوران کشمیر پر پاکستان کی حمایت میں نہایت متنازعہ بیان دیا تھا۔
اس وقت ہندوستان نے ترک سفیر متعین ہندوستان کو بھی طلب کر کے ایک سخت سفارتی نوٹ دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ رجب طیب اردوغان کے یہ ریمارکس ترکی کی جانب سے دیگر ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کی ایک اور مثال ہے جو ہندوستان کے لیے ناقابل قبول ہے۔
ہندوستان نے یہ بھی کہا تھا کہ ترکی کے صدر کے” ریمارکس نہ تو تاریخ فہمی کی عکاسی کرتے ہیں اور نہ ہی سفارت کاری کے آداب کی“ہندوستان نے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی سرحد پار دہشت گردی کو حق بجانب قرار دینے کی ترکی کی بار بار کی جانے والی کوشش کو بھی مسترد کر دیا۔اور کہا کہ اس قسم کے حالات سے ہمارے دو طرفہ تعلقات پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے۔
ہندوستان کے لیے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ ترک صدر اردوغان نے گذشتہ سال دفعہ370کی تنسیخ کے بعد پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے ہندوستان پر سخت تنقید کی تھی۔ ہندوستان نے بھی گذشتہ سال شمال مشرقی شام میں ترکی کی یکطرفہ فوجی کارروائی پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا اور ترکی سے کہا تھا کہ تحمل سے کام لے اور شام کے اقتدار اعلیٰ اور علاقائی یکجہتی کا احترام کرے۔
