واشنگٹن :ملیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد کے متنازعہ ٹویٹ کو ٹویٹر نے ڈیلیٹ کر دیا ہے۔ مہاتیر نے کہا کہ مسلمانوں کو غصہ ہونے اور فرانس کے لاکھوں لوگوں کو مارنے کا حق ہے۔ فرانس کے ایک چرچ پر حملے کے بعد مہاتیر محمد نے 13 ٹویٹ کئے تھے۔ سابق وزیر اعظم نے لکھا۔ ماضی کے قتل عام کے لئے مسلمانوں کو یہ حق ہے۔ ان کے اس بیان کو ٹویٹر نے قابل اعتراض بتاتے ہوئے ہٹا دیا ہے۔
ماٰثر نے دوسروں کا احترام کریں سے اپنے ٹویٹ کا آغاز کیا۔ لکھا، ایک 18 سال کے چیچن پناہ گزیں نے کلاس میں پیغمبر ﷺکے کارٹون دکھانے پر فرانسیسی استاذ سیموئل پیٹی کا قتل کر دیا۔ استاذ اظہار رائے کی آزادی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ ایک مسلمان کے طور پر میں اس قتل کو درست نہیں مانتا۔ میں اظہار رائے کی آزادی میں یقین رکھتا ہوں۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کسی کی بے عزتی کی جانی چاہئے۔ ماٰثر نے فرانس کے صدر ایمینوئل میکرون کو گستاخ بتایا۔ انہوں نے کہا کہ کسی مذہب کی توہین کر نے والے ایک استاذ کے قتل پر پورے اسلام کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے۔
مہاتیر نے فرانس کے صدر ایمینوئل میکرون کو گستاخ بتایا۔ انہوں نے کہا کہ کسی مذہب کی توہین کر نے والے ایک استاذ کے قتل پر پورے اسلام کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے۔ادھر فرانس کے نائس شہر میں ایک چرچ میں جمعرات کو ایک شخص نے چاقو سے حملہ کر دیا جس میں تین لوگوں کی موت ہو گئی۔ فرانسیسی صدر نے اسے اسلامی دہشت گردانہ حملہ بتایا ہے۔بتا دیں کہ مشتبہ حملہ آور کو گولی ماری گئی ہے اور اسے حراست میں لیا گیا ہے۔ نائس شہر کے میئر نے اس خوفناک حادثہ کو دہشت گردی سے تعبیر کیا ہے۔میئر کرسچین استورسی نے کہا کہ چاقو سے یہ حملہ شہر کے نوٹرے ڈیم چرچ میں ہوا ہے۔
پولیس نے حملہ آور کو گرفتارکرلیا ہے۔پولیس نے بتایا کہ تین لوگوں کے مارے جانے کی تصدیق ہوگئی ہے۔ کئی دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔ ایک پولیس ذرائع نے کہا کہ خاتون کا گلا کاٹا گیا ہے۔ فرانس کے ایک لیڈر نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ خاتون کا گلا کاٹا گیا ہے۔