پارول چندر
کہیں ایسا تو نہیں کہ سویڈن میں صحافی ساجد حسین ، اور خیبر پختون خوا میںپشتون تحفظ تحریک(پی ٹی ایم) کے رہنما عارف وزیر کی ہلاکت کے پس پشت خود حکومت پاکستان کا ہاتھ ہے؟ اور ایسا تو نہیں کہ اس وقت چونکہ پوری دنیا کوکوویڈ 19(COVID19 )وباسے نمٹنے میں لگی ہوئی ہے اس لیے حکومت پاکستان خاص طور پر آئی ایس آئی نے صدائے احتجاج بلند کرنے والی ان شخصیات کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردینے کے لیے یہ موقع غنیمت جانا؟
قومی سلامتی مشاورتی بورڈ (این ایس اے بی) کے ممبر تلک دیواشر ، جنھوں نے پاکستان پر تین کتابیں بشمول’پاکستان: دی بلوچستان کوننڈرم ‘ تصنیف کی ہیں ، ان دونوں اموات کے بارے میں کہا ، ”یہ دونوں ہلاکتیں عالمی وبا میں دنیا بھر کی مصروفیت کی آڑ میں کی گئی ہیں ۔ سویڈن کوویڈ 19 بری طرح متاثر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی اس وبا سے دوچار ہے۔ جس کا پاکستان نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس نے ان لوگوں کو جنہیں وہ پسند نہیں کرتا نجات حاصل کرنے کے لیے اس عالمی وبا کو ایک بہترین موقع سمجھا ۔کیونکہ اس وقت پوری دنیا کی توجہ صرف اور صرف کورونا وائرس وبا سے نمٹنے پر مرکوز ہے۔
سب سے پہلے مرنے والے انڈر آن لائن میگزین بلوچستان ٹائمز کے ایڈیٹر ساجد حسین تھے ، جو 2017 سے سویڈن میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے تھے۔ وہ 2 مارچ کو لاپتہ ہوگئے تھے اور یکم مئی کو ان کی لاش سویڈن کے شہر اپسالہ کے باہر ایک نہر میں ملی تھی۔ رپورٹرز وِدھ آو¿ٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی سویڈش شاخ نے بتایا کہ انہیں پاک انٹیلی جنس ایجنسی کی ایماء پر اغوا کیا گیا ہوگا۔
سویڈش پولیس نے بھی ،جو اس معاملہ کو خودکشی یا کسی حادثے کے نظریہ سے دیکھنے اور اسی سمت تحقیقات کر رہی ہے، اس معاملہ میںکسی جرم کے ارتکاب کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا ہے۔حسین کی موت کے کم و بیش ڈیڑھ ماہ بعد بلوچستان ٹائمز نے ایک مضمون میںلاپتہ صحافی کا سراغ لگانے میں سویڈن پولس کی ناکامی پر انگشت نمائی کرتے ہوئے اس میں کسی سازش کا اشارہ دیا تھا۔”اس نے جو لکھا اس کا لب لباب یہ تھا اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ایک ایسے ملک میں جو قانون کی حکمرانی اور سلامتی کے معاملہ میں معروف ہے ایک ممتاز صحافی اچانک ہی لاپتہ ہو جائے اور پھر کئی دنوں تک اس کا کوئی اتہ پتہ بھی نہ مل سکے۔
بلوچستان ٹائمز مزید رقمطراز ہے کہ فی الحال کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی لیکن اگر انہیں اغوا کیا گیا تھا تو اس سے جرائم پیشہ عناصر کا حوصلہ اور بھی بڑھ جائے گا کیونکہ حکومت پاکستان کا ردعمل اتنی تیزی سے نہیں ہوا جتنا توقع کی جارہی تھی۔ساجد بلوچستان کی عوام کے لئے ایک زبردست آواز تھی، جس نے پاکستان کی فوج کے ہاتھوں جبراً گمشدگی اور وسیع پیمانے پرمنشیات کی اسمگلنگ ہونے کے دستاویزی ثبوت پیش کیے تھے۔
بلوچستان ٹائمز نے مزید لکھا ہے کہ ان (ساجد) کا کام اکثر انھیں پریشانیوں میں ڈال دیا کرتا تھا کیونکہ حکام ان کی بلوچستان کی حالت زار بیان کرنے والی رپورٹنگ اور خبروں اور مضامین کو پسند نہیں کرتے تھے اور اسی وجہ سے انہیں ملک چھوڑ کر جلاوطنی میں رہنا پڑا۔جس دن حسین کی لاش ملی ، پشتون رہنما عارف وزیر کو جنوبی وزیرستان کے وانا میں گولیوں سے شدید زخمی کر دیا گیا اور اگلے دن وہ خموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گئے ۔
انہوں نے جس تحریک کی سربراہی کی وہ غیر متشدد ہے ، جو ماو¿رائے عدالت قتل اور اغوا کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہے ، اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے نمٹنے کے لئے سچے اور مصالحتی کمیشن پر زور د یتی ہے۔ اس تحریک نے خاص طور پر صوبے میں پاک فوج کی کارروائیوں کو نشانہ بنایا ہے۔اس کے جواب میں فوج نے اس تحریک کو پاکستان مخالف کہناشروع کر دیا۔ فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ہندوستانی اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں پر پی ٹی ایم کو مالی اعانت فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ تنظیم کی سرگرمیاں برداشت نہیں کی جائیں گی۔پاک فوج کی جانب سے پشتونوں کے خلاف سخت موقف اپنانے کی ایک وجہ ہے۔ ڈیواشر نے کہا کہ فوج نہیں جانتی کہ تحریک سے کس طرح نمٹناہے کیونکہ یہ شہری حقوق کی ایک تحریک ہے۔اس کا نہ تو کوئی سیاسی ایجنڈا ہے اور نہ ہی یہ پرتشدد ہے۔ انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اس وقت حکومت چلانے میں وزیر اعظم عمران خان کی نااہلی کی وجہ سے پاکستان ایک خاموش یا نرم بغاوت سے دوچار ہے۔
ڈیواشر نے کہا کہ اس کے نتیجے میں فوج اپنے طور پر اوربہت زیادہ کھلے انداز میں کام کر رہی ہے۔اس تناظر میں ، انہوں نے عمران خان کےمعاون خصوصی کے طور پرلیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی تقرری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس عہدے پر ہونے کے باعث وہ عمران خان کی شبیہہ اور ساکھ کو، جو ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے بحال کرنے کی کوشش کرنے کے علاوہ کابینہ کے اجلاسوں میں بھی بیٹھیں گے ۔
(پارول چندر ہندوستان کے موقر جریدوں بشمول دی ٹائمز آف انڈیا اور فنانشیل ایکسپریس میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپا ل کے حالات پر گہری نظر اور دسترس رکھتے ہیں)