U.S. names coordinator on Tibet amid tensions with Chinaتصویر سوشل میڈیا

واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ نے حقوق انسانی کے ایک سینیئر عہدیدار کو تبتی امور کا ایک خصوصی وساطت کار مقرر کر دیا۔ٹرمپ کا یہ ایسا قدم ہے جو پہلے ہی سے چین امریکہ کے درمیان جاری کشیدگی کو مزید ہوا دے گی اور چین مزید چراغپا ہو سکتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پوم پیو نے اعلان کیا کہ جمہوریت، ،انسانی حقوق اور مزدور طبقہ کے نائب وزیر خارجہ رابرٹ ڈیسٹرو یہ اضافی عہدہ بھی، جو 2017میں صدر ٹرمپ کے دور اقتدار کے آغاز سے ہی خالی ہے، سنبھالیں گے۔

پوم پیو نے ایک بیان جاری کر کے کہا کہ ڈیسٹرو عوامی جمہوریہ چین اور تبتی روحانی رہنما دلائی لامہ یا ان کے نمائندوںکے درمیان مذاکرات کو فروغ دینے ، تبتیوں کی منفرد مذہبی، ثقافتی اور لسانی شناخت اور ان کے انسانی حقوق کا احترام کرانے کی امریکی کوششوں کو آگے بڑھائیں گے۔

چین امریکی وساطت کار سے کوئی بھی بات کرنے سے متواتر انکار کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ یہ اقدام اس کے داخلی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ڈیسٹر کا تقرر ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات متعدد معاملات بشمول تجارت، تائیوان ، حقوق انسانی ، جنوبی چین بحریہ اور کوویڈ 19-پر نہایت پستی میں جا گرے ہیں۔

چین نے1950میں تبت پو اپنا تسلط قائم کر لیا تھا اور اس نے اسے پر امن آزادی سے تعبیر کیا تھا جس نے اس دور افتادہ ہمالیائی خطہ کو ماضی کے جاگیرداری نظام سے نجات دلانے میں معاونت کی تھی۔لیکن جلاوطن روحانی رہنما دلائی لامہ کی قیادت میں نقاد کا کہنا ہے کہ چینی حکومت ثقافتی نسل کشی کی مرتکب ہورہی ہے۔

پوم پیو نے کہا کہ تبتیوں پر عوامی جمہوریہ چین کے مظالم اور جبر و استبداد سے امریکہ کو سخت تشویش ہے۔پوم پیو نے کہا کہ جولائی میں کہا تھا کہ امریکہ تبت تک سفارتی رسائی روکنے اور حقوق انسانی کی پامالی میں ملوث کچھ چینی عہدیداروں پر ویزا پابندیاں عائد کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ تبت کو بامعنی خود مختاری دیے جانے کی حمایت کرتا ہے۔اس کے باوجود اپنے پیشرو براک اوبامہ کی طرح ٹرمپ نے اپنے دور صدارت مین ایک بار بھی دلائی لامہ سے ملاقات نہیں کی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *