واشنگٹن،(اے یو ایس ) امریکی انٹیلی جنس نے انکشاف کیا ہے کہ روس ماسکو کے مشرق میں ایران کی مدد سے ڈرون تیار کرنے کے لیے ایک فیکٹری تعمیر کر رہا ہے، یہ اقدام یوکرین کی جنگ پر نمایاں اثر ڈال سکتا ہے۔ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے تجزیہ کاروں نے جمعہ کو ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کو بتایا کہ، تہران باقاعدگی سے روس میں زیر تعمیر فیکٹری میں سامان منتقل کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ سہولت ابھی زیر تعمیر ہے اور توقع ہے کہ روس کو بغیر پائلٹ کے طیاروں کا ایک نیا ذخیرہ فراہم کرے گا۔امریکی انٹیلی جنس نے کہا کہ یہ سہولت اگلے سال کے آغاز تک مکمل ہو جائے گی، اور خبردار کیا گیا ہے کہ نئے ڈرونز کا روس یوکرین تنازعہ پر خاصا اثر ہو سکتا ہے۔
اپریل میں، امریکہ نے ماسکو سے 600 میل مشرق میں روس کے الابوگا اسپیشل اکنامک زون کے اندر ڈرون مینوفیکچرنگ پلانٹ کے مجوزہ مقام کی ایک سیٹلائٹ تصویر جاری کی تھی۔سی این این نے رپورٹ کیا کہ ایران ڈرون، ہتھیاروں اور مارٹروں کو روس منتقل کرنے کے لیے بحیرہ قزوین کا استعمال کرتا ہے،اور اکثر ایسے بحری جہاز استعمال کرتا ہے جو “ٹریکنگ سسٹم استعمال نہیں کرتے” یا اپنی نقل و حرکت کو چھپانے کے لیے اپنے ٹریکنگ ڈیٹا کو بند کر دیتے ہیں۔ایران کی جانب سے روس کو یوکرین میں استعمال کے لیے آلات فراہم کرنے کے بار بار انکار کے باوجود امریکہ نے یوکرین میں گرائے گئے بہت سے ڈرونز حاصل کیے اور ان کا تجزیہ کیا ہے، اور حکام کا کہنا ہے کہ “ناقابل تردید شواہد” موجود ہیں کہ ڈرون ایرانی ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ نے پچھلے سال ایک توسیعی ٹاسک فورس کا آغاز کیا تاکہ اس بات کی تحقیقات کی جا سکیں کہ امریکی اور مغربی اجزائ ، بشمول امریکی ساختہ مائیکرو الیکٹرانکس، روس میں استعمال ہونے والے ایرانی ساختہ ڈرونز میں کیسے پہنچے۔ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ تجزیہ کاروں نے پہلی بار اپریل 2022 میں روس ایران فوجی شراکت داری کے بڑھتے ہوئے آثار دیکھے۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ایران روس کو فوجی سازوسامان کی فراہمی سے فائدہ اٹھاتا ہے کیونکہ اس طرح وہ اپنے ہتھیار بین الاقوامی خریداروں کو پیش کر سکتا ہے اور اس کے بدلے میں روس سے اپنے خلائی اور میزائل پروگراموں کے لیے رقم اور مدد حاصل کر سکتا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیلسٹک میزائلوں کی فراہمی سے روسی جنگ کے لیے ایرانی حمایت میں “بڑے پیمانے پر” اضافہ ہوگا، اور یہ واضح نہیں ہے کہ آیا تہران تنازعہ کے اس مقام پر یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔