واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ نے چینی کمیونسٹ پارٹی کے اراکین اور ان کے اہل و عیال کی امریکہ آمد و رفت کم کرنے کے لیے نئے سفری ضابطے جاری کر دیے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان رشتوں میں پہلے ہی سے چلی آرہی تلخی کو مزید بڑھا دے گا۔
وزارت خارجہ کے ایک ترجمان اس نئی پالیسی کے تحت،جو فوری طور پر نافذ العمل ہے، چینی کمیونسٹ پارٹی کے اراکین اور ان کے اہل و عیال کے سفری ویزا کی زیادہ سے زیادہ میعاد ایک ماہ کر دی گئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ویزا حاصل کرنے والے چینیوں کو ویزا جاری کیے جانے کے ایک ماہ کے اندر امریکہ آجانا ہوگا۔ طریقہ کار کے مطابق امریکی سرحدی عہدیداران داخلہ مرکز پر یہ طے کریں گے کہ امریکہ آنے والا شخص کتنی مدت تک قیام کر سکتا ہے۔
ویزا جاری ہونے کے باوجود امریکہ میں داخلہ کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔داخلے کی اجازت دینا نہ دینا امریکی سرحدی افسروں کے فیصلہ پر منحصر ہوگا۔ماضی میں دیگر چینی شہریوں کی طرح چینی کمیونسٹ پارٹی کے اراکین بھی دس سال تک کی میعاد کا ویزا حاصل کر سکتے تھے۔ان ترمیمات کے حوالے سے تمام معلومات رکھنے والے دو اہلکاروں کے مطابق پارٹی اراکین کے لیے سفری ویزا بھی اب انفرادی داخلہ کے لیے ہی ہوگا اس سے پہلے پارٹی اراکین کے ویزے سے اجتماعی داخلہ ممکن ہو جایا کرتا تھا۔نئے اقدامات سے پارٹی اراکین کو دیگر اقسام مثلاً امیگریشن یا روزگار کے ویزوں کے استحقاق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید بتایا کہ پالیسی میں تبدیلی سے جاری کیے گئے ویزے واپس نہیں لیے جائیںگے۔نیاویزا ضابطہ دونوں ممالک کے مابین تجارت، ٹیکنالوجی اور کئی دہگر معاملات پر برسوں سے جاری کشیدگی کو اور بڑھانے والا ہے۔چینی ویزا بندشیں اور اس پر چین کا متوقع رد عمل صدر منتخب جوزف آر بائیڈن جونیر کے لیے ، جنہیں 1979میں سفارتی تعلقات کے معمول پر آنے کے بعد اب تک سے سب سے بدتر امریکی چین تعلقات ورثے میں ملے ہیں،ایک اور چیلنج ثابت ہوگا۔کچھ لوگوں کو یہ امید ہو سکتی ہے کہ جو بائیڈن تعلقات کو نئے سرے سے ترتیب دسے سکتے ہیں ،لیکن چونکہ وہ صدر براک اوبامہ کے نائب صدر تھے اس لیے چین سے متعلق ان کے خیالات و نظریات کافی سخت ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسٹر بائیڈن ٹرمپ انتظامیہ کے ذریعہ کیے گئے اکثر سخت اقدامات بشمول چینی تکنالوجی پر پابندیاں اور امپورٹ ایکسپورٹ ڈیوٹی جوں کی توں رکھنے کا عزم کیے ہیں۔اپنے حالیہ انٹرویو میں مسٹر بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ چینی تجارتی حربوں کا جامع جواب دینے کے لیے اتحادیوں سے مشاورت کریں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ چین کے ذریعہ کی کی جارہی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں بشمول سین سیانگ میں وسیع پیمانے پر گرفتاریاں اور قید کے معاملات سے سختی سے نپٹیں گے۔ کمیونسٹ پارٹی کی 92ملین رکنیت پر مبنی امریکی حکومت کے اندازے کے مطابق اصولی طور پر نئی ویزا پالیسی کم و بیش270ملین لوگوں پر اثر انداز ہو گی۔
عملی طور پر یہ طے کرنا مشکل ہو جائے گا اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ کون کون پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔جو مسٹر بائیڈن کو نئے قوانین کے نفاذ میں لچک پیدا کرنے کا موقع دے سکتا ہے۔سفری ویزے سے متعلق نئے قواعد کے حوالے امریکی عہدیداران ویزا درخواست اور انٹرویو کے ساتھ ساتھ متعلقہ اہلکار کی پارٹی رکنیت کی مقامی سمجھ بوجھ کی بنیاد پر کسی کے بھی کمیونسٹ پارٹی کا رکن ہونا طے کر سکتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ یہ پالیسی تجارت اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں ترقی پانے کے لیے پارٹی میں شمولیت کرنے والے نچلی سطح کے کروڑوں اراکین کی بہ نسبت چین کے اعلیٰ سرکاری اور کاروباری شخصیات پر بری طرح اثر انداز ہو گی۔چین کے رہبر اعلیٰ شی جن پینگ نے روزمرہ کی زندگی کے کئی پہلوو¿ں میں پارٹی کی فضیلت پر زور دیا ہے۔
وزارت خاجہ کے ترجمان نے اس اقدام کو چینی کمیونسٹ پارٹی کے ناپاک عزائم سے امریکی عوام کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے امریکی حکومت کی جاری پالیسی، ریگولیٹری اور قانون نافذکرنے والی کارروائی کا ایک جزو بتایا۔ انہوںنے مزید کہا کہ سالہا سال سے ہم نے چینی کمیونسٹ پارٹی کو امریکی اداروں اور کاروبار تک ہر قسم کی بندش سے آزاد رسائی کی اجازت دی جبکہ اسی قسم کی مراعات چین میں امریکی شہریوں کو کبھی حاصل نہیں رہیں۔اگرچہ کوویڈ19-کے باعث چین اور امریکہ کے درمیان سفر پہلے ہی بہت محدود ہے پھر بھی چین کی جانب سے اس پالیسی تبدیلی پر فوری جوابی جواب دیا جا سکتا ہے۔2018میں تقریباً3ملین چینی شہریوں نے امریکہ کا سفر کیا تھا۔
چین کی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان ہووا چونینگ نے ایک پریس کانفرنس میں ان نئے ضابطوں کی مذمت کی ۔ بولم برگ نیوز کے مطابق محترمہ ہووا نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ امریکہ میں عوام چین کے تئیں فہم و شعور کا مظاہر کے ایک یکساں عقلی نظریہ اختیار کریں گے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے تئیں اپنی منافرت اور غلط ذہنیت کو ترک کر دیںگے۔یہ نئے قواعد و ضوابط امریکہ کا سفر کرنے والے نچلی سطح کے پارٹی اراکین کا منظم طریقیہ سے پتہ لگانے کی کوشش میں پہلا قدم ثابت ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ ویزا کی دخاست کرتے وقت اپنی پارٹی رکنیت کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کریں اور بعد میں اس کا انکشادف ہو جائے تو ان پر ویزا فراڈ کے الزامات عائد کیے جا سکتے ہیں۔
مسٹر ٹرمپ کے دور صدارت میں وزارت خارجہ نے چینی شہریوں کے مختلف گروپوں بشمول سین سیانگ میں مسلم نسلی اقلیتوں کی نگرانی اور وسیع پیمانے پر قید و نظربند کرنے کے ذمہ دار افسران پر دیگر ویزا پابندیوں کا اعلان کیا۔مئی میں امریکی افسران نے کہا کہ حکومت امریکہ میں زیر تعلیم گریجویٹ یا اعلیٰ سطح کی تعلیم پانے والے طلبا کا ،جن کے چینی فوجی اداروں سے روابط ہیں، ویزا منسوخ کر رہی ہے۔2014میں امریکہ اور چین نے دونوں ممالک کے لوگوں کو سیاحتی اور تجارتی ویزے کی میعاد ایک سال سے بڑھا کر دس سال کرنے پر اتفاق کر لیا تھا۔یہ معاہدہ اوبامہ کے دورہ چین کے دوران، جب دونوں ملکوں کے درمیان بڑے خوشگوار اور گرم جوش تعلقا ت تھے، کیا گیا تھا۔اسوقت نئی ویزا پالیسی کا اعلان کرتے وقت وائٹ ہاو¿س نے امریکی سیاحتی صنعت کو فائدہ پہنچانے اور چین کے ساتھ تجارت اور دیگر تجارتی رشتوں کی بڑے زور شور سے تشہیر کی تھی۔