واشنگٹن:(اے یو ایس ) این بی سی نیوز کے مطابق سابق امریکی حکام اور ماہرین نے کہا ہے کہ ایران اور عالمی طاقتیں جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے اگلے ہفتے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں تو امریکا اور اس کے اتحادی پہلے ہی “پلان بی” کے اختیارات کی فہرست پر بات کر رہے ہیں۔ایران اور اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کے درمیان ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ امریکی اور یورپی حکام کو ایران کے جوہری پروگرام کے خطرناک مقام کی طرف بڑھنے کے ساتھ ہی (سخت پابندیوں سے لے کر ممکنہ فوجی کارروائی تک) متبادل آپشنز کے استعمال کا سامنا ہے مگر ایسے لگتا ہے کہ امریکیوں کا اس حوالے سے رویہ مایوس کن اور سرد مہری پر مبنی ہے۔
بات چیت سے واقف ایک سابق سینیر امریکی اہلکار نے کہا کہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کی راہ میں کئی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ مجھے نہیں لگتا ہم ان مذاکرات سے کوئی اچھا نتیجہ حاصل کر پائیں گے۔یورپی سفارت کاروں اور سابق امریکی حکام اور ماہرین کے مطابق ممکنہ آپشنز میں چین کو ایران سے تیل کی درآمد روکنے کے لیے راضی کرنا، پابندیاں سخت کرنا، چین کو تیل کی فروخت کو روکنا، عارضی جوہری معاہدے پر اتفاق کرنا،ایران کے جوہری پروگرام کو سبوتاڑ کرنے کے لیے خفیہ کارروائیاں شروع کرنا ، ایران کے خلاف فوجی حملوں کا حکم دینا یا ایرانی جوہری تنصیبات پراسرائیلی فوجی کارروائی کی حمایت کرنا جیسے آپشنز ہوسکتے ہیں۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اگر ویانا میں ہونے والی بات چیت ناکام ہو جاتی ہے تو صورتحال جلد ہی امریکا اور ایران کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے سے پہلے کے تناؤ کی طرف جاسکتی ہے۔ اس وقت اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر فوجی حملے پر سنجیدگی سے غور کیا تھا اور واشنگٹن اور یورپ نے تہران پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔لیکن سابق امریکی عہدیداروں نے کہا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام 10 سال پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ ترقی یافتہ ہے جس سے واشنگٹن کو اس بحران کو کم کرنے کے لیے سانس لینے کی کم گنجائش مل رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول لے لیے جوہری مواد حاصل کرنے کی خاطر چند ہفتے یا دو ماہ ہی کافی ہوں گے۔جب ایران سابق صدر براک اوباما کی انتظامیہ کے ذریعے طے پانے والے 2015 کے جوہری معاہدے کی تعمیل کر رہا تھا تو اس وقت ایرانکے لیے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے وقت کا اندازہ ایک سال لگایا گیا تھا۔امریکی اور یورپی اتحادیوں کے پاس بھی اوبامہ انتظامیہ کے مقابلے میں مذاکرات کی طاقت کم ہے۔ تب پابندیوں میں ریلیف کے امکان نے ایران کو ایک پرکشش ترغیب فراہم کی اور مزید پابندیوں کے خوف نے مغربی سفارت کاروں کو طاقتور فائدہ پہنچایا تھا۔مشرق وسطیٰ میں ایک غیر ملکی سفارت کار نے کہا کہ ا±نہیں توقع نہیں تھی کہ ویانا میں ہونے والی بات چیت سے زیادہ نتیجہ نکلے گا۔ اہلکار نے مزید کہا کہ مجھے ایک وجہ بتائیں کہ ایران معاہدے پر واپس کیوں جانا چاہتا ہے؟۔اگر بات چیت تعطل تک پہنچ جاتی ہے تو یورپی سفارت کاروں اور سابق امریکی حکام نے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ مذاکرات کو مردہ قرار دینے سے بچنے کی کوشش کر سکتی ہے۔
اس کے بجائے 2015 کے معاہدے پرمکمل واپسی کے بغیر دوسری عبوری تجاویز کے لیے دروازہ کھلا چھوڑ سکتی ہے۔ ایک عبوری معاہدہ، جس میں ہر فریق معمولی قدم اٹھانے یا مستقبل کے معاہدے کے زیر التوائ جمود کو بنیادی طور پر منجمد کرنے پر راضی ہو۔امریکی سفارت کار اپنے روسی اور چینی ہم منصبوں کو یہ دکھانے کے لیے بے چین ہوں گے کہ مذاکرات میں کسی بھی خرابی کا ذمہ دار ایران – امریکا نہیں ہے۔ سابق امریکی حکام اور یورپی سفارت کاروں نے کہا کہ اگر ماسکو اور بیجنگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ایران کا رویہ لچکدار ہے تو اس سے واشنگٹن کو ایران پر دباو¿ بڑھانے میں مدد ملے گی۔اگرچہ چین نے ان مذاکرات میں تعمیری کردار ادا کیا جس کی وجہ سے 2015 کا معاہدہ ہوا لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا بیجنگ اس بار امریکی موقف کی حمایت کرنے کے لیے کھلے پن کا مظاہرہ کرے گا یا نہیں۔