سیکورٹی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جنوب ایشیا میں امن درہم برہم کرنے کی نیت سے افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کا ایک اتحاد ابھر رہا ہے کیونکہ جنگ زدہ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی ہونے والی ہے۔ ان عہدیداروں نے میڈیا سے با ت کرنے کے قواعد و ضوابط کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے مزید بتایا کہ پاکستان مقیم انتہاپسند تنظیمیں ،لشکر طیبہ اور جیش محمد، افغان طالبان اور داعش کی مقامی شاخ داعش خراسان کشمیر میں ہندوستانی فوجیوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ کابل میں ہندوستانی املاک پر حملے کرنے کے لیے متحد ہو گئی ہیں۔ نیز یہ کابل میں ایک سکھ گوردوارے پر بھی حملہ کر چکی ہیں۔
دنیا کی ایک چوتھائی آبادی والے،جنوب ایشیا میں ، جہاں دو تہائی غربت کی زندگی گذار رہے ہیں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ہونے والا اضافہ خطہ میں لاکھوں افراد کے لیے ضروری وسائل کا رخ بدلنے کا باعث بن سکتا ہے۔اس کے علاوہ ایٹمی اسلحہ سے لیس دو ممالک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ٹکراؤ کا بھی باعث بن سکتا ہے اور2019میں کشمیر میں ہندوستانی فوجیوں پر حملہ سے دونوں ملک ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔ واشنگٹن مقیم سابق امریکی نائب وزیر خارجہ اور خارجہ تعلقات سے متعلق کونسل کی سینیئر فیلو محترمہ الیزا آئریس نے کہا کہ” اصل خطرہ یہ ہے کہ یہ گروپ صرف امریکی اور بین الاقوامی فوجوں کے انخلا کے منتظر ہیں اور جیسے ہی یہ فوجیں افغانستان چھوڑ کر چلی جائیں گی وہ افغانستان اور ایک بڑے خطہ کو غیر مستحکم کر دیں گے۔“ طالبان کے ساتھ دوحہ امن معاہدے کے بعد امریکی فوجیں افغانستان سے جارہی ہیں۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ جو دوسری بار صدارتی انتخابات لڑ رہے ہیں ،اپنے ملک کو ”نا ختم ہونے والی جنگوں “ سے نکالنے کا عہد کر چکے ہیں۔امریکہ پہلے ہی فوج کی تعداد میں تخفیف کر کے 8000کر چکا ہے اور کچھ اڈے افغان حکومت کے حوالے کر چکا ہے۔ پنٹاگون میں پریس عہدیداروں نے اس پر تبصرے کی درخواست پر فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔افغانستان کے صدر اشرف غنی نے عید الاضحیٰ کے موقع پر طالبان کی جانب سے تین روز کی جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کر کے امید کی ایک کرن روشن کی ہے۔ان کے ترجمان صدیق صدیقی نے ٹوئیٹر پر کہا کہ توقع ہے کہ غنی ایک ہفتہ کے اندر طالبان سے امن مذاکرات کریں گے۔غنی کے ریمارکس کے فوراً بعد طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں جنگ بندی کی تصدیق کی لیکن ساتھ ہی یہ انتباہ بھی دیا کہ حملوں کا نہایت سخت جواب دیا جائے گا۔
طالبان نے مئی میں تین روز کی عید الفطر کی تعطیلات میں بھی اسی طرح جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔افغانستان کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے کہا کہ” طالبان علاقائی اور بین الاقوامی دہشت پسند تنظیموں بشمول القاعدہ، داعش، لشکر طیبہ اور دیگر کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔“ فیصل نے مزید کہا کہ ان دہشت گرد تنظیموں اور طالبان کے درمیان شراکت داری محض افغانستان یا خطہ کو غیر مستحکم کرنے کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا میں بدامنی اور عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے ہے۔ان کے بارے میں سمجھا جا رہا تھا کہ وہ بہت پہلے ہی ان تنظیموں سے تعلقات منقطع کر چکے ہوں گے لیکن ان کے تعلقات ابھی تک بحال ہیں اور وہ چونکہ یکساں ذہنیت و نظریہ کے حامل ہیں اس لیے ان کے تعلقات ختم بھی نہیں ہوں گے۔ “ہندوستانی عہدیداروں نے کابل میں قدیم تاریخی سکھ گوردوارے پر حملے، جس میں کم از کم25سکھ شہید ہوگئے اور اپریل میں ننگر ہار صوبہ میں انسداد دہشت گردی کارروائی کو ، میں جس میں طالبان اور پاکستان سے کام کر رہے انتہا پسند گروپوں سے تعلق رکھنے والے 14دہشت گرد ہلاک ہوئے ،ان دہشت گرد تنظیموں کے درمیان تعلقات ہونے کا ثبوت بتایا۔
انیہوں نے مزید بتایا کہ متواتر حملے کرنے کے لیے وسطی و جنوبی افغانستان میں بے شمار مشترکہ تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ داخلی سلامتی کی وزارت کے ایک ترجمان نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ایک سینیئر ہندوستانی افسر نے ا نتباہ دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ساتھ لڑ نے والے پاکستانی انتہاپسندوں کی تعداد 6500سے زیادہ ہو سکتی ہے۔دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکی فوجوں کی واپسی سے خطہ میں تشدد میں کوئی اضافہ نہیںہوگا۔ اس نے مزید کہا کہ کشمیر صورت حال خراسب ہونے کا سبب ہندوستان کے ناقص اقدامات ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے گذشتہ سال جموں و کشمیر کی کلیدی حیثیت ختم کر دی اور ہندوستانی قوانین نافذ کر دیے۔
پاکستان کی فوج کے میڈیا بازو نے ایک بیان میں کہا کہ ”افغانستان سے امریکی افواج کی وپسی کو مسئلہ کشمیر سے جوڑنا خطہ میں ابال برقرار رکھنے کے لیے ہندوستان کی ایک اور مذموم کوشش ہے۔یہ نام نہاد انٹیلی جنس رپورٹیں کہ پاکستان کوئی سازش کر رہا ہے یا جنگی سازش کر رہا ہے بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہیں۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی داعش یا پاکستان میں سرگرم دہشت پسند گروپوں سے کسی بھی قسم کا تعلق ہونے کی تردید کی ہے۔