چین ایغوروں کی شناخت ختم کرنے اورایغوروں کی منفرد افراد کی حیثیت مٹانے کے لیے وسیع پیمانے پر قید، اور قید کے دوران بھی ان کی نہایت کڑی نگرانی اور جبری مزدوری کے ذریعہ اوپر سے نیچے تک بڑی منظم مہم چلا رہا ہے۔
چونکہ چین کپاس پیدا کرنے ولا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اس لیے ملبوسات کی کمپنیوں کو اس خوفناک حقیقت سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے اور وہ کم داموں میں اپنا کام کرا لیتی ہیں۔
چین میں کپاس کی مجوعی پیداوار کا 80فیصد حصہ ایغور خطہ میں اگتا ہے۔جو کہ دنیا بھر کی مجموعی پیدوار کا20فیصد ہے۔نتیجہ میں سوتی کپڑا تیار کرنے والا کم و بیش ہر اعلیٰ برانڈ اور خوردہ فروش کپاس کی مصنوعات چین سے حاصل کرنے میں لگا ہے۔
جہاں ایک جانب چین کے نسلی۔مذہبی بنیاد پر حراستی کیمپ کے حوالے سے یہ کہہ کر آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے کہ یہ تعلیم نو اور پیشہ ورانہ تربیت دینے کے مراکز ہیں ، جبری مزدوری نظام کو بڑی خوبصورتی اور نرمی سے ”غریبی کا خاتمہ“ کہا جاتا ہے۔2015میں سین سیانگ حکومت نے خطہ میں 2023تک ایک ملین لوگوں کو روزگار مہیا کرنے کے لیے سوتی کپڑے اور ملبوسات کی صنعتوں کو توسیع دینے کے ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا۔
ان صنعتوں میں کام کرنے کے لیے ابتداءمیں جنوبی ایغور خطہ سے لوگوں کو بھرتی کیا جائے گا۔ مروجہ ضابطوں کے مطابق نشان زد افرادی قوت پوری کرنے والی کمپنیوں کے لیے یہ توسیع حکومتی بھرتی کوٹہ
اورسب سڈیز کے توسط سے ہو گی۔